تعارف
زندگی سے بھرپور ہمہ جہت ادبی شخصیت، احمد ندیمؔ قاسمی بیک وقت ایک عظیم شاعر بھی ہیں اور بے حد معروف، بلند مرتبہ ادیب بھی۔ اُن کی غزلوں، نظموں، نعتوں، قومی و ملی نغموں، افسانوں، ناولٹ، شخصی خاکوں، فکاہی، ادبی و معاشرتی کالموں، بچوں کا ادب (نظمیں، کہانیاں، ڈرامے)، تبصروں، مختلف نوعیت کے مضامین، انٹرویوز، اداریوں، ادارتوں کو اُردو ادب میں منفرد حیثیت اور اعلی مقام حاصل ہے۔ ندیمؔ کے فن پاروں کی بڑی پہچان اُن کی انسان دوستی، روشن خیالی اور نیک نیتی پر مبنی پُرخلوص، ہمدردانہ سچی تڑپ کی انفرادیت میں ہے۔ اُن کے یہاں احساس کی گہرائی اور مربوط و مستحکم فکر کی وسعت بھی ہے۔ یوں وہ نفیس احساس اور مضبوط افکار کا دلکش اور پرکشش سنگم، متاثر کن انداز میں سامنے لاتے ہیں۔ ندیمؔ رومانوی انقلابی آرزومندی سے آغاز کرتے ہوئے حقیقت و صداقت پسندی کو اپنا لیتے ہیں۔ طرزِ ادا ایمائیت و اشاریت کے باوجود واضح ابلاغ کی حامل ہے۔ پُرتاثیر اندازِ بیان میں بے ساختگی، سادگی، روانی اور تازگی ہے۔ جبکہ جراتِ افکار و اظہار کی گہری معنویت نمایاں وصف ہے۔ ندیمؔ مجموعی طور پر زندگی کی روشنی، عقل و دانش، جرات و صداقت اور اُمید و جستجو کے شاعر اور ادیب ہیں۔ اُن کی شاعری اور افسانوں میں موضوعات کا حیران کن اور بے مثال تنوع ہے۔ وہ سبھی انسانوں کیلئے خیر و خوبی کے خواہاں ہیں اور ہمیشہ مثبت امکان سے وابستہ رہتے ہیں۔ اُن کے فن میں جدت پسندی بھی ہے جبکہ مشرقیت و وطنیت کے رنگ بھی نمایاں ہیں۔ انسان اور اُسکی انسانیت سے محبت اُن کے فن پاروں کو عالمگیریت و آفاقیت دے دیتی ہے۔ اُن کی ڈکشن اپنے ہم عصر شعراء سے مختلف ہے۔ ندیمؔ کے الفاظ موقع کے مطابق ہیں اور اُن کے جرات مند، ہمدردانہ مزاج کے حامل مضبوط توانا لہجے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ انداز سچا، کھرا اور پراعتماد و پرتاثیر ہے۔ ندیمؔ کے افسانوں میں بے حد گہرائی، سچائی، وقار اور تاثیر کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ وہ قارئین کے لئے دلچسپی اور تجسس، کہانی کے آغاز سے اختتام تک نہایت خوبصورتی سے برقرار رکھتے ہیں۔ اور قاری کو لطف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر مائل کر لینے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔
احمد ندیمؔ قاسمی بہت سی خداداد خوبیوں سے سرفراز تھے اور اُنہوں نے محنت بھی خوب کی۔ یوں ایک چھوٹے سے گاؤں سے آغاز کرنے والا، دنیا بھر میں جانا اور مانا گیا۔ صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کی انوکھی اور دلکش وادیء سُون سکیسر کی گود میں محفوظ ایک خوبصورت پہاڑی گاؤں ’’انگہ‘‘ میں 1916ء کے ماہِ نومبر کی 20 تاریخ کو ندیمؔ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ گاؤں کے امیر خاندان کے ایک غریب گھرانے میں ذہین اور صحت مند ندیمؔ (اصل نام احمد شاہ) اپنی باہمت ماں کی پرورش سے فیض یاب ہوئے۔ (کہ، والد گرامی پیر نبی چن صاحب نے صرف اللہ سے لو لگا لی تھی)۔ ابھی ندیمؔ آٹھ سال کے تھے کہ اُن کے والدِ محترم کا انتقال ہو گیا۔ انگہ میں پرائمری کے بعد اُن کے ایک چچا پیر حیدر شاہ، جو کہ اسسٹنٹ کمشنر تھے، اُنہیں کیمبل پور (اٹک) ساتھ لے گئے اور یوں اُن کی پُرآسائش ماحول میں تربیت کی اور تعلیم دلوائی۔ مڈل اٹک سے اور میٹرک 1931ء میں شیخوپورہ سے کیا۔ ایف-اے 1933ء میں صادق ایجرٹن کالج، بہاولپور سے کیا۔ ابھی تھرڈ ائیر میں تھے کہ سرپرست چچا کا انتقال ہو گیا لہذا تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ بی۔اے تو 1935ء میں کر لیا لیکن کوئی مناسب ملازمت نہ مل سکی۔ کچھ چھوٹی موٹی ملازمتوں کے بعد ایکسائز انسپکٹر بھرتی ہوئے۔ لیکن یہ ملازمت بھی اُن کے مزاج کے مطابق نہیں تھی۔ آخر اپنے ایک مُربّی، مولانا عبدالمجید سالک کی کوششوں سے 1942ء میں بچوں کے رسالے ’’پھول‘‘ اور خواتین کے رسالے ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ ادبی رسالے ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی۔ پسند کا ذریعہ معاش ملا تو خوب محنت کی۔ مگر بوجوہ طبیعت کی خرابی پر بڑے بھائی واپس گاؤں لے گئے۔ وہاں سے تحریکِ آزادیء پاکستان میں عملی حصہ لیا۔ پھر 1946ء میں ریڈیو پشاور میں سکرپٹ ایڈیٹر و رائٹر مقرر ہوئے۔ وہیں 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی رات بارہ بجے اعلانِ قیامِ پاکستان کے ساتھ ریڈیو سے احمد ندیمؔ قاسمی کے لکھے تین قومی نغمے نشر ہوئے۔ جنہیں پاکستان کے پہلے قومی نغمے ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اُن میں سے ایک کے بول تھے: ’’پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو‘‘۔
1948ء میں ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے جس کا بنیادی مقصد ہر طرح کے استحصال سے پاک، مساوات کا حامی، خوشحال شادمان انسانی معاشرہ تشکیل دینا تھا۔ لاہور آ کر رسالہ ’’نقوش‘‘ کا اجراء کیا۔ 1949ء میں مشہور و مقبول، انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے سیکرٹری جنرل کے اہم عہدے کے لئے منتخب ہوئے۔ اس کی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے خوب جدوجہد کی۔ شاعروں، ادیبوں، فنکاروں کے ساتھ مل کر حقائق سامنے لائے۔ حکومت سے برداشت نہ ہوا اور ندیمؔ سمیت دیگر ادیبوں کو سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں نظر بند کر دیا گیا۔ انجمنِ ترقی پسند مصنفین پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
رہائی کے بعد ندیمؔ مختلف اخبارات و رسائل کے لئے لکھتے رہے۔ 1953ء میں مشہور اور موقر روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ وہاں تقریبا سات سال کام کیا۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران ندیمؔ کو ایک بار پھر اظہارِ رائے کی پاداش میں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی کے بعد اخبار ’’امروز‘‘ کو مارشل لاء کے حکام نے ٹرسٹ کے تحت قبضے میں لے لیا تو ندیمؔ نے استعفی دے دیا۔ اس کے بعد ندیمؔ مختلف فن پاروں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اخبارات میں ادبی و فکاہی کالم بھی لکھتے رہے، جنہیں بے حد پسند کیا گیا۔ 1963ء میں اپنے ادبی رسالے ’’فنون‘‘ کا اجراء کیا۔ محنت اور لگن سے اُسے اعلی معیار کی بلندی تک پہنچا دیا کہ نہ صرف آج بھی اُس کی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ بلکہ عہدِ ندیمؔ میں اس رسالے میں جن ادیبوں، شاعروں کو کھوج کر ندیمؔ نے اپنی سرپرستی میں تربیت دے کر اور نکھار کر شائع کرنے کا آغاز کیا وہی سب دنیائے اُردو ادب پر چھا گئے۔ 2006ء تک ندیمؔ نے اس کے 126 شمارے شائع کیے (جسے ندیمؔ کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی اور اور نواسا نیّر حیات قاسمی آج بھی کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ)۔ ندیمؔ 1973ء میں مجلسِ ترقی ادب کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور تا عمر عہدے پر فائز رہے۔ ندیمؔ کا انتقال 10 جولائی 2006ء کو لاہور میں ہوا۔ اور یہیں تدفین ہوئی:
میں مر بھی جاؤں تو تخلیق سے نہ باز آؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنیں گے نِت نئے خاکے مِرے غبار سے بھی ’’ندیمؔ‘‘
احمد ندیمؔ قاسمی نے اپنی پچاس سے زائد کتابیں شائع کیں۔ جن میں شاعری کے 11 مجموعے ( ایک نعتیہ و حمدیہ مجموعے سمیت) اور افسانوں کے 17 مجموعے شامل ہیں۔ ایک ناولٹ بھی ہے، 2 کالموں کے مجموعے، 2 شخصی خاکوں کے مجموعے، جبکہ تنقید کی 5 کتب شائع ہوئیں۔ بچوں کے لئے 3 کتابیں، کلیات کی 3 کتابیں جبکہ 7 کتابوں کی ترتیب و تدوین کی۔ جبکہ ابھی بچوں کی نظمیں، پنجابی مجموعہء نظم و نثر، تنقیدی و تجزیاتی مضامین، مختلف کالموں اور خطوط پر مشتمل کتابیں زیرِ طبع ہیں۔ خود ندیمؔ کے فکر و فن اور شخصیت پر کئی کتابیں لکھی گئیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں اُن کے فن پاروں کے تراجم بھی ہوئے اور رسائل و جرائد نے اُن کے لئے خصوصی نمبر بھی شائع کیے۔ ندیمؔ کے حوالے سے پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں پی ایچ ڈی کی سطح کا کام ہو چکا ہے اور آج بھی جاری ہے۔ ان کے صد سالہ یومِ ولادت کے سلسلے میں 2016ء کو ’’ندیم صدی‘‘ سال کے طور پر منایا گیا۔ مختلف وقیع کتب شائع کی گئیں۔ رسالوں کے نمبرز نکالے گئے اور پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں احمد ندیمؔ قاسمی کی قابلِ قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں میں شاندار تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو دریا ہوں، سمندر میں اُتر جاؤں گا ’’ندیمؔ‘‘
اِسی سمندر کی ایک سدا بہار توانا لہر، اِس دعا میں بھی ہے کہ:
خدا کرے کہ مِری ارض پاک پر اُترے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ فصلِ گُل جسے اندیشہء زوال نہ ہو ’’ندیمؔ ‘‘
(آمین)