ابتدائی سفرِ حیات ۔ احمد ندیم قاسمی
(پیدائش سے لے کر 35 سال کی عمر تک)

؂ سفرِ حیات کے موڑ پر میں یہ سوچ کر بھی رُکا نہیں
کفِ پا ہیں میرے جلے ہوئے، مِرا راستہ ہے تپا ہوا
(ندیم)

صدیوں پہلے تبلیغِ اسلام کے لئے عرب سے روانہ ہونے والے علماء کے خاندانوں پر مشتمل ایک گروہ، ایران اور پھر افغانستان سے ہوتا ہوا ملتان آکر بس گیا۔ اُن میں سے کچھ منتحب افراد کی ایک تبلیغی جماعت شہری آبادیوں سے دور، وسیع میدانوں کے پار، اونچے نیچے ٹیلوں سے آگے، کوہستانِ نمک کے سلسلے کے ایک تیکھی چوٹی والے بلند و بالا پہاڑ’’ساکی سر‘‘ کی گود میں سمٹی وسیع جھیل کے کنارے وادی میں پہنچی۔

عالمی محققین کے مطابق :
’’وادیء سون سکیسر‘‘ پانی سے باہر آنے والی دُنیا کی پہلی خشکی ہے۔ یعنی دُنیا کی قدیم ترین وادی ہے۔ روئے زمین پر پھیلے سمندر کے اِس پہلے اور واحد کنارے کا ثبوت ’’کوہستان نمک‘‘ ہے۔۔۔۔۔ بتایا جاتا ہے کہ مہا بھارت کی جنگ بھی یہاں ہی لڑی گئی تھی۔ یہ وادی بدھ مت کی تہذیب کا مرکز رہی ہے اور سکندرِ اعظم نے اپنی پہلی چھاؤنی بھی یہاں ہی ڈالی۔۔۔۔۔ یہاں کی چٹانیں اپنی عمر کم از کم پچپن کروڑ سال بتاتی ہیں اور ان پر اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ ماہرینِ ارضیات نے اِس وادی کو ارضی علوم کا عجائب گھر قرار دیا ہے۔‘‘

بقول احمد ندیم قاسمی،یہ وادی سون سکیسر:
’’کوہستان نمک کے اس پست مگر زرخیز و شاداب سلسلہ ء کوہ میں واقع ہے، جو مغرب میں دریائے سندھ کے کناروں سے اُبھر کر مشرق میں پنجاب کے اضلاع میانوالی، شاہپور(سرگودھا)، جہلم اور گجرات میں سے گزرتا ہوا کوہ ہمالیہ کے جنوب مغرب میں ایک نیلی قوس کی طرح ایستادہ ہے۔اس پہاڑ کے جو حصّے آبادیوں سے کچھ دُور ہیں وُہ پست قد (مگر خوشبو دار) درختوں سے پٹے ہوئے ہیں۔‘‘
’’جب بابر ہندوستان پر حملہ آورہوا تو ملتان کے چند بزرگوں کو علاقہ سون سکسیر کے صنم پرستوں کو تدریسِ توحید کے لئے منتخب کیا۔ ان حضرات میں میرے ایک بزرگ بھی شامل تھے۔ سکیسر پہاڑ کے قدموں میں ایک بہت بڑی جھیل آئینے کے فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور اس کے آس پاس ننھی ننھی ڈھیریاں کھڑی ہیں۔ ان بزرگوں نے جھیل کے مشرق میں ایک پہاڑی پر ’’اسلام آباد‘‘ کے نام سے ایک گاؤں آباد کیا اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ مغلوں کے زمانے میں نہایت وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے بعد نادر شاہ دُرّانی کی یلغار کے دنوں میں انہیں (اپنے افرادِ خانہ کے ہمراہ) یہ گاؤں خالی کرنا پڑا اور وہ شمال مغربی پہاڑوں کی گپھاؤں اور جنگلوں میں چھپ گئے۔ جب دُرّانی واپس ہوا تو یہ اپنی پناہ گاہوں سے نکلے۔ اسلام آباد لُٹ چکا تھا۔ اس لئے اس کے شمال مشرق میں ایک اورپہاڑی پر موجود گاؤں انگہ (آں گاہ) آباد کیا۔‘‘
’’۔۔۔۔۔ تاکہ آئندہ کوئی حملہ آوراس طرف متوجہ ہو تو فوراً پچھلی پہاڑیوں میں منتقل ہو کر اس کا مقابلہ کیا جا سکے ۔۔۔۔۔’’انگہ‘‘ اب ضلع خوشاب میں وادیء سو ن سکسیر کا ایک پہاڑی گاؤں ہے۔‘‘

پہاڑی گاؤں انگہ تک پہنچنے کا راستہ تنگ دروں میں سے تیز موڑ کے ساتھ بل کھاتا گزرتا ہوا اور خاصا دشوار اور پیچیدہ سا تھا۔ اسی لئے محفوظ تھا۔ دور دراز سے مختلف لوگ انگہ (اور اُس جیسے، اردگرد کے پہاڑوں میں دیگر محفوظ  گاؤں) میں آکر رہنے بسنے لگے۔ ان میں کچھ بدھ، ہندو اور سکھ بھی تھے جو انگہ کے مسلمان علماء کی فراخ دلی سے متاثر تھے۔ بزرگوں کے مشورے سے نیچے منسلک میدانی تختوں میں بارانی کھیت اُگالئے گئے اور کنویں کھود لئے گئے۔ انگریزوں کی حکومت سے قبل جب بھی حملہ آوروں کی اس سمت آمد کی اطلاع ملتی، سب گاؤں والے پہاڑ کے پیچھے چلے جاتے جبکہ مرد وہیں مورچے سنبھال لیتے او ر خطرہ ٹل جانے کے بعد سب واپس گھروں کو پلٹ آتے۔ ملکی حالات بدلے تو یہ لوگ مستقل طور پر گاؤں ہی میں رہنے لگے۔ پُر امن، سادہ اور مطمئن زندگی کا یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہا۔ بڑے سے پیالے نما اس پہاڑی سلسلے میں محفوظ انگہ سمیت یہ سب گاؤں شہری سہولتوں اور آسائشوں سے آشنا نہیں تھے لیکن پتھریلی گلیوں کے ارد گرد تعمیر کردہ اِن سادہ سے گھروں میں زندگی سادگی اور سکون کے ساتھ برس ہا برس کا سفر طے کرکے 1916ء کے سال میں داخل ہوئی۔ نئی صدی کے آغاز سے قبل ہی ان گھرانوں کے سپوت دور دراز تک جاتی پگڈنڈیوں اور کچے راستوں کے ذریعے شہری آبادیوں سے رابطے قائم کر چکے تھے۔ اسی لئے یہاں کی کھیتیوں کے مالک خاصے خوشحال گھرانے ہو چکے تھے اور باہر کی دُنیا سے اس وادی کا کچھ کچھ تعارف بھی ہو چکا تھا۔

اس وادی کے گاؤں انگہ کے کھاتے پیتے خوشحال خاندان کے ایک نسبتاً غریب گھر (کہ گھر کے سربراہ نے صرف اللہ سے لو لگا لی تھی) کی پاکیزہ فضا میں ایک شہد رنگی چمکتی آنکھوں اور سیاہ گھنگھریالے بالوں والے گورے چٹے صحت مند بچے نے اپنی زندگی کا پہلا سانس لیا۔ اس سے پہلے اِس گھر کے دو لڑکوں کے نام اللہ بخش اور محمد بخش رکھے گئے تھے۔ اس بچے کا نام اس کی والدہ نے چوکھنڈی (ضلع چکوال) میں آباد اپنے ننھیال کے ایک قابلِ احترام بزرگ کے نام پر احمد شاہ (شاہ بمعنی بادشاہ) رکھا۔ گھر والے اسے پیار سے ’’شاہ‘‘یعنی بادشاہ کہتے تھے۔ ایک تو یہ گھر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا اس لئے بھی سب کا بے حد لا ڈلا تھا۔ پھر اس کی ذہانت ، خوش مزاجی اور پسندیدہ عادتیں بھی محبتیں کھینچ لیتی تھیں۔ احمد شاہ سے پہلے اس گھر میں چار بچوں نے جنم لیا تھا (دو بھائی، دو بہنیں) ان میں سے دو حیات تھے۔ ایک بڑی بہن سعیدہ بانو اور ایک بھائی محمد بخش، جبکہ ننھا سا شاہ ان کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ یہ بچہ بہت شریر اور ذہین تھا لیکن مزاج میں سادگی اور ہمدردی تھی۔احمد شاہ کے بے حد حسین و جمیل اور نیک عبادت گزار والد پیرغلام نبی علاقے کی اہم صاحبِ کرامت بزرگ شخصیت کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ اُن کی شہرت پھیلی تو سیالکوٹ، کشمیر اور گجرات کے لوگ اُن کے مرید ہو گئے، لیکن اُنہیں دنیاوی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی نہ کسی صلے سے سروکار تھا۔ لوگ اُنہیں پیار اور احترام سے پیر نبی چَن (چَن بمعنی چاند یعنی بہت خوب صورت ) کہتے تھے۔

احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
’’جب میں نے آنکھ کھولی تو میرے مرحوم و مغفوروالد گرامی ریاضت کی افراط  سے فنا فی اللہ ہو چکے تھے۔۔۔۔۔ انہیں یہ احساس تک نہ تھا کہ دُنیوی حشمت بھی کوئی چیز ہے۔ میرا گھر افلاس اور بد حالی کا ایک عجیب مرقع تھا کہ پختہ مکان اور کھلے صحن۔۔۔۔۔ مگر پہننے کو موٹا کھدر اور کھانے کو جنگلی ساگ اور آگ تاپنے کو اپنے ہی ہاتھوں سے چُنے ہوئے اُپلے۔۔۔۔۔آس پاس اکثر تمام رشتہ دار لڑکے (ندیم کے دس چچا اور ایک پھو پھی جبکہ پانچ خالائیں اور ایک ماموں تھے) امیر اور خوش لباس تھے، ان کی کتابیں نئی تھیں، ان کی سلیٹوں کے ساتھ موٹے موٹے سنہری اسفنج لٹکے تھے اور اُن کی سلیٹوں پر، ہتھیلیاں تھرک جاتی تھیں اور یہاں توے کی کالک سے روشنائی تیار ہوتی تھی۔ اَن گنت کناروں والی سلیٹ کے ٹکڑوں پر سوالات حل ہوتے تھے۔ ایک ہی قلم کو ’’دُہرے فرائض‘‘ کے لئے دونوں طرف سے تراش لیا جاتا تھا۔ مٹی کی دوات میں روشنائی سے زیادہ صوف ہوتا تھا مگر اِن کے باوجود ہونٹ سُرخ اور چہرہ روشن تھا اور اس اطمینان کا حقیقی سبب والدہ تھیں، جن کے وجودِ گرامی کی برکت سے مجھے اب تک ہر مصیبت میں مسکرانا اورہر پہاڑ سے ٹکرانا آتا ہے۔‘‘

احمد شاہ کی والدہ غلام بیوی، سُلجھی ہوئی، مہذب، صابر اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ وہ خاصی خوش گفتار تھیں اور پُر مزاح گفتگو کرتی تھیں۔ اُن کے سلیقے اور خودداری کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔ انہوں نے غربت میں بھی پُر وقار زندگی گزاری۔ اُن کے شوہر کے حصّے میں آئی چند ایکڑ زمین سے جو اناج حاصل ہوتا، اسی پر سال بھر کی گزر بسر تھی۔ (تفصیل احمد ندیمؔ قاسمی کے پہلے مجموعہء کلام ’’جلال وجمال‘‘کے طویل ابتدائیہ میں اور مختلف انٹرویوز میں ملاحظہ کیجیئے)۔ غلام بیوی صاحبہ نے اپنے بچوں کی نہایت اچھی تربیت کی۔ ننھے احمد شاہ نے تعلیم کا آغاز 1920ء میں درسِ قرآن کے حصول سے کیا۔ انہوں نے  یہ درس اپنے گاؤں کی اُس خاندانی مسجد سے لیا جہاں اُن کے خاندان کے بزرگ برس ہا برس سے دینی درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے آ رہے تھے۔

احمد ندیم قاسمی اپنے ایک انٹر ویو میں بتاتے ہیں کہ:
’’میں چار برس کا ہوا تو انگہ کی اُسی مسجد میں قرآن مجید کے درس میں شامل ہوا ،جہاں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ نے میرے خاندان کے بزرگوں سے ابتدائی تعلیم حا صل کی تھی۔‘‘

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ اور ان کی والدہ بی بی راستیؒ کا تعلق بھی انگہ سے ہے۔

سیّد احمد سعید ہمدانی لکھتے ہیں:
’’حضرت سلطان باہوؒ اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔۔۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والد بازید محمد دین دار، متقی اور حافظِ قرآن تھے۔۔۔۔۔ (انہوں نے) حضرت بی بی راستیؒ سے نکاح فرمایا جو ایک عالی مقام ولیّہ تھیں۔ سُون سکسیر کے گاؤں ’’انگہ‘‘میں وہ جگہ اب تک معروف و محفوظ  ہے جہاں وہ ایک پہاڑی کے دامن میں چشمے کے کنارے ذکر میں محو رہا کرتی تھیں۔‘‘

’’انگہ‘‘ کی مسجد اور وہاں درس و تدریس کی اِس قدر اہمیت تھی کہ دُور دراز سے لوگ اس مسجد کے حجروں میں قیام کے لئے آتے اور عالم بزرگوں سے درس لیتے۔ یہ علماء کُھلے دل و دماغ کے مالک تھے۔ یہیں سے تعلیم حاصل کرنے والے، احمد ندیم قاسمی کے ایک خالہ زاد بھائی مولوی ضیاء الدین صاحب (سُرکّی شریف ۔ والدِ رابعہ ندیم) کو لاہور کی دو معروف مسجدوں کے لئے خطیب کی پیش کش ہوئی۔ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے لاہور نہ جاسکے۔ جبکہ ندیم صاحب کے دوسرے خالہ زاد بھائی مولانا غلام مرشد عرصہ دراز تک لاہور کی مشہور مسجد وزیر خان اور عالمگیری بادشاہی مسجد میں خطیب رہے۔ وہ روشن خیال مجتہد عالمِ دین تھے۔ (معلومات پیرزادہ محمد سلیم)

بے حد ذہین اور محنتی احمد شاہ نے جب انگہ کی معروف مسجد سے دس سپارے پڑھ لئے تو اُن کے ایک تعلیم یافتہ چچا پیر حیدر شاہ صاحب نے، جو سول سروس میں ایمان دارافسر تھے، اپنے بڑے بھائی کی مذہبی مصروفیات اور اُن کے گھر کی صورت حال دیکھی تو والد کی باقاعدہ شفقت اور نگرانی سے محروم دونوں لڑکوں کی تعلیم کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ اُنہوں نے ہدایت کی کہ یہ بچے گاؤں کے سکول سے پرائمری پاس کر لیں پھرمیں اِنہیں اپنے ساتھ شہر لے جاؤں گا اور سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کا درس اور دینی تربیت میں خود دوں گا۔ یوں ان کی دینی اور دنیوی تعلیم وتربیت مکمل ہو سکے گی۔

1923ء میں جب احمد شاہ تیسری جماعت میں تھے۔ ان سے آٹھ برس بڑی بہن سعیدہ بانو (والدہ معروف صحافی اور منفرد افسانہ نگارظہیر بابر) کا بیاہ ہو چکا تھا۔ وہ احمد شاہ کو بہت عزیز تھیں۔ احمدشاہ سے دو برس بڑے بھائی محمد بخش اپنے ہم عمر چچا زاد بھائی کے ہم راہ پرائمری پاس کرنے کے بعد چچا امیر حیدر کے پاس کیمبل پور(ضلع اٹک) جا چکے تھے (اُس وقت پرائمری چار جماعتوں پر مشتمل ہوتی تھی) کہ اسی دوران اُن کے والد صاحب پیر نبی چَن کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ اُن کے آخری وقت میں احمد شاہ اپنی والدہ (جنہیں وہ ’’مائے‘‘ کہتے تھے) کے ساتھ اپنے والد (جنہیں وہ’’بابو جی‘‘ کہتے تھے) کے قریب بیٹھے تھے۔ والدہ، پیر صاحب کی بدلتی ہوئی کیفیت دیکھ کر رونے لگیں تو پیر نبی چَن صاحب نے احمد شاہ کو پاس بُلا کر اپنی شریکِ حیات سے کہا:’’روتی کیوں ہو؟ میں یہ دو شیر (محمد بخش اور احمد شاہ) تمہارے پاس چھوڑے جا رہا ہوں‘‘۔ اِس کے بعد اُن کی رحلت ہو گئی ۔ یوں آٹھ برس کی عمر میں احمد شاہ نے یتیمی کا سخت صدمہ سہا۔
چوتھی جماعت میں وظیفے کا امتحان ہوا۔ ذہین اور لائق احمد شاہ ضلع بھر میں اوّل آیا۔ (سال بعد کل وظیفہ 60 روپے اپنی پہلی کمائی کہہ کر اپنی والدہ کے ہاتھ پر رکھا تو وہ خوشی سے رو دیں)۔ احمد شاہ اپنی مائے سے جُدا نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ماں نے اپنی تنہائی قبول کر لی اور احمد شاہ کو بہلا پھسلا کر روانہ کر دیا۔

؂ اندھیری راہوں پہ بھاری چھکڑے کے پہیے یوں چرچرا رہے ہیں
کہ جیسے دہقان گونجتی گھاٹیوں میں کچھ گاتے جا رہے ہیں
اُداس تارے، خموش جوہڑ میں ڈوب کر غوطے کھا رے ہیں
شریر جھینگر کرخت پیں پیں کے تیز نشتر چلا رہے ہیں
میرا وہ ننھا سا گاؤں میری نگاہ سے چھپتا جا رہا ہے
مرے گھروندے میں جانے اب تک چراغ کیوں ٹمٹما رہا ہے
منڈیر کی آڑ لے کے شاید ضعیف ماں میری روتی ہوگی
مِرے تصور میں آنسوؤں کی کتنی لڑیاں پروتی ہو گی
(احمد ندیمؔ قاسمی ۔ نظم’’نوکری پر جاتے ہوئے‘‘۔ جلال وجمال)

احمد شاہ اپنے چچا پیر حیدر شاہ اور چچی شرفاں بیوی اور اپنے بڑے بھائی پیرزادہ محمد بخش کے پاس کیمبل پور پہنچ گئے۔ چچا چچی لاولد تھے، لیکن اُنہوں نے اپنے خاندان کے بچوں کو بے حد پیار دیا اور انہیں ساتھ رکھ کر بہترین تعلیم وتربیت کی۔ احمد ندیم قاسمی اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ جس ہستی کی شفقتوں کا حیرت بھری مسّرت کے ساتھ بارہا ذکر کرتے تھے، وہ یہی چچی شرفاں بیوی (بیگم پیر حیدر شاہ) ہیں۔ ندیم صاحب کہتے ہیں کہ شرفاں بیوی (جنہیں وہ ماسی، یعنی ماں جیسی کہتے تھے) کی سی مہربان، شفیق اور مخلص خاتون انہوں نے کبھی نہیں دیکھی جو دوسروں کی اولاد کو بھی اِس قدر توجہ اور پیار دے سکے۔
چچا کے گھر میں خوب خوشحالی تھی۔ ہر طرح کی شہری سہولت حاصل تھی۔ آرام دہ نرم صوفوں اور عمدہ فرنیچر سے آراستہ کمرے اور خدمت کے لئے ملازمین کی قطار، کھانے کے لئے عمدہ چیزیں، سواری کے لئے سجا ہوا ٹانگہ تھا۔ پھر بعد میں پیر صاحب کی کار بھی اُن کے تصرف میں تھی۔ یوں ندیم نے تنگ دستی کی تلخ اور سادہ زندگی کے ساتھ ساتھ بے حد خوش حالی کے سُکھ کو بھی اچھی تربیت کی وجہ سے توازن اور وقار سے برتا اور تعلیم بھی پوری لگن سے حاصل کی کہ اسی تعلیم کے حصول کے لئے والدہ سے جدائی برداشت کی تھی۔

ندیم صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا:
’’میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا لہٰذا میں نے اپنے چچا پیر حیدر شاہ کی سر پرستی میں ہی تعلیم حاصل کی۔ اگرچہ وہ سول سروس میں تھے مگر انہیں علم وادب کا بے حد شوق تھا۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں اعلیٰ درجے کی کتابیں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ گھر میں اس زمانے کے معروف رسالے ’’نگار‘‘،’’صوفی‘‘اور ’’ہمایوں‘‘وغیرہ بھی آیا کرتے تھے۔ ہمارے چچا ہمیں صبح سویرے عبدالحق محدّث دہلوی کی لکھی ہوئی تفسیرِ حقانی پڑھایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہم سے تاریخ اور علم کے بارے میں بھی دلچسپ اور معلومات افزاء گفتگو کیا کرتے تھے جو میرے اور میرے بھائیوں (سگے بھائی اور کزنز) کے لئے بہت مفید ثابت ہوتی تھی۔‘‘

اپنی والدہ کی اچھی تربیت کے بعد اُنہیں ہمدرد چچا اور چچی نے اپنی نگرانی میں پروان چڑھانا شروع کیا ۔چچا نے کڑی نظر رکھی اور بھر پور توجہ دی جبکہ چچی نے شفقت، پیار اور نرمی سے خیال رکھا۔ یوں دونوں نے ان زیرِ تربیت بچوں کو دینی اور دنیوی اعلیٰ معیاروں سے علمی اور عملی طور پر روشناس کیا۔ چچا حیدر پڑھے لکھے، خوش ذوق اور نفیس انسان تھے۔ وہ میر حسن کے شاگرد تھے۔ احمد شاہ کو اپنے چچا سے علامہ اقبال اور ظفر علی خان کے ساتھ دیگر شعراء (جن میں عربی اور فارسی کے شعراء بھی شامل ہیں) کے اشعار بھی موقع بہ موقع سننے کو ملتے، پھر گھر میں آنے والے ادبی جرائد و رسائل تھے جو مطالعے کے بے حد شوقین احمد شاہ کے لئے انوکھا سرمایہ تھے۔ ان ہی کی بدولت اچھے معیاری ادب کے مطالعے کا ذوق نکھرنے لگا۔

احمد ندیم قاسمی کے ہم مکتب احمد شفیع لکھتے ہیں:
’’اپنی کتابوں کے ساتھ احمد شاہ کی لگن اور کُرید اُسے دوسرے طالب علموں سے ہمیشہ الگ رکھتی تھی اور اُس کی با وقار خاموشی میں مستقبل کا ایک جرّی دانش ور پرورش پا رہا تھا۔‘‘

موسم گرما کی تعطیلات میں تین ماہ کے لئے گاؤ ں جاتے تو انگہ کے اسکول کی مختصر سی لائیبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے کے لئے ضرور وقت نکال لیتے۔ یہیں پر اُنہیں پریم چند کے افسانوی مجموعے پڑھنے کا نادر موقع ملا۔ 1926ء میں جب احمد شاہ چھٹی جماعت میں تھے تو ایک روز سب بھائی چاقو سے گنے چھیل چھیل کر چُوس رہے تھے۔ بقول پیر زادہ محمد بخش، احمد شاہ نے اپنے حصے کا گنا چُوس لیا توبڑے بھائی کے گنے پر جھپٹا۔ اُن کے ہاتھ میں چاقو تھا جو احمد شاہ کے گال کو ہونٹ سے گردن تک چیرتا ہوا نکل گیا۔ بہت درد ہوا، بہت خون بہا لیکن چچا کو پتہ نہ چلنے دیا ، نہ کسی سے شکایت کی۔ بھائی نے زخم میں راکھ بھر دی۔ کافی دنوں تک احمد شاہ کامیابی سے اپنا زخم چھپاتے رہے۔ ایک روز چچا کی نظر پڑ گئی تو وُہ ڈاکٹروں کے پاس لئے لئے پھرے۔ زخم مندمل ہو گیا لیکن دیر سے علاج شروع کرنے کی وجہ سے نشان رہ گیا جو آخر تک رہا، جب بھائی زخم پر دوا لگاتے تو احمد شاہ (ندیم) ایک شعر کو بدل کر چھیڑ چھاڑ کے لئے یوں پڑھتے:

؂ میرے زخموں پر مت رکھو مرہم
میرے بھائی کی یہ نشانی ہے

پیرزادہ محمد بخش لکھتے ہیں:
’’1927ء میں جب (احمد شاہ کی عمر دس گیارہ برس اور محمد بخش کی عمر تیرہ چودہ برس تھی) گرمیوں کی چھٹیاں قریب تھیں تو مجھے خیال آیا کہ گاؤں جا کر ایک ’’انجمنِ نوجوانانِ اسلام‘‘ بنائیں گے اور اپنے ہم عصروں کو قرآنِ مجید کا ترجمہ پڑھائیں گے اور انہیں نماز روزے کی طرف راغب کریں گے۔ میں نے شاہ سے اس کا ذکر کیا تو کہنے لگا کہ اس کا ’’منشور‘‘ میں تیار کرتا ہوں! اور میری حیرت کی حد نہ رہی جب ایک ڈیڑھ گھنٹے کے اندر شاہ اپنے ہاتھ میں منظوم منشور لئے میرے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ (مجھے بے حد افسوس ہے کہ اس کا مسودہ مجھ سے ضائع ہو گیا ورنہ آج اُس کا مطالعہ دلچسپ ہوتا) میں نے اس انجمن کے مقاصد کے بارے میں جو کچھ سوچا تھا وہ سب اس نظم میں بڑی خوبی اور سلاست سے آگیا تھا ۔یہ شاہ کی ابتدائی اُردو شاعری تھی۔‘‘
’’ان دنوں (یعنی جب شاہ ساتویں جماعت میں تھا ) اُس نے اپنی کاپی پر پورا ناول لکھ کر میرے سامنے رکھ دیا۔‘‘

یہ ناول احمد شاہ کے ہم جماعتوں نے بھی بے حد پسند کیا۔وہ مضمون نویسی کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ 1928/29ء میں جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے تو ریڈ کراس سوسائٹی کے تحت منعقدہ مقابلہ مضمون نویسی میں پنجاب بھر میں اوّل رہے۔ دراصل احمد شاہ جتنا زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا ذوق رکھتے تھے اتنا ہی زیادہ لکھنے کا شوق بھی تھا۔ لیکن وہ ہر وقت صرف لکھتے اور پڑھتے ہی نہیں رہتے تھے بلکہ کھیل کود سے بھی دلچسپی تھی۔ اس وقت نوجوانوں میں مقبول کوئی کھیل ایسا نہ تھا جس میں اُنہوں نے حصہ نہ لیا ہو۔ وہ خاص طور پر کبڈی اور والی بال کے نمایاں کھلاڑی تھے۔ اُن کی اچھی صحت کا راز بھی یہی تھا، پھر وہ خوب جی بھر کر شرارتیں کرتے توتھے لیکن اپنی تعلیم پر سنجیدگی سے توجہ بھی دیتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ بہت حساس، ہمدرد، مخلص اور دوست دار نوجوان تھے، اس لئے اپنے ہم عصروں میں بے حد مقبول تھے۔ اپنے گاؤں جاتے تو اپنے بھائی اور دوستوں کے ہمراہ وادی میں دُور دُور تک گھومتے۔ یوں اُنکی معلومات کے ساتھ ساتھ اُن کے مشاہدات اور تجربات میں بھی خوب خوب اضافہ ہوا جو بعد میں تخلیقِ فن کے لمحوں میں اُن کے لئے مفید رہا۔

جہاں تک شعرو شاعری کی بات ہے تو یہ تو جیسے اُن کی گھٹی میں شامل تھی (بقول محترمہ نور جہاں عباس) ننھے احمد شاہ کی مائے جب اپنے گھریلو کاموں کے دوران اپنی سُریلی آواز میں علاقے کے گیت گنگناتی تھیں تو وہ ہر طرف سے توجہ ہٹا کر اُن گیتوں کے بول دھیان سے سُنا کرتے تھے اور زیرِ لب دُہراتے رہتے تھے۔ پیرزادہ محمد بخش لکھتے ہیں:
’’جب شاہ چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا، اُس وقت اُس کی عمر یہی کوئی آٹھ نو برس ہو گی۔ ہمارے ایک عزیز کی شادی ہوئی۔ عورتیں ڈھولک، گھڑااور تھالی بجا کر گیت گانے لگیں، مرد محلے کی چوپال پر چلے گئے اور بچے مکان کی چھت پر جا بیٹھے۔ ہم بھی چھت پر بیٹھے ان دیہاتی گانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک مجھے شاہ کا خیال آیا میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو مجھے کہیں نظر نہ آیا ۔۔۔۔۔ گاؤں بھر میں ڈھونڈ تھکا ۔۔۔۔۔ میری تلاش کی آخری منزل اُن لڑکیوں اور بڑی بوڑھیوں کی’’محفلِ سماع‘‘ تھی جس کا ذکر کر چکا ہوں۔ وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شاہ لڑکیوں کی ٹولی میں بیٹھا ہے۔ وہ گا رہی ہیں۔۔۔۔۔ جونہی ان کے گیت کی روانی ٹوٹنے لگتی ہے وہ شاہ پر جھکتی ہیں۔۔۔۔۔ شاہ کی مدد سے یہ لڑکیاں نئے نئے بول گاتی جاتی ہیں۔ اس دن کے بعد شاہ کو باقاعدہ بلاوے آنے لگے۔۔۔۔۔ وہ نئے نئے ماہیے، ڈھولے اور ٹپے گھڑ گھڑ کر انہیں تھماتا جاتا۔ لڑکیوں کی جس ٹولی سے شاہ نتھی ہو جاتا۔ اس کا مقابل ٹولی سے شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘‘

یوں تو چوتھی جماعت پاس کر کے احمد شاہ شہر چلے گئے تھے لیکن جب بھی چھٹیوں میں انگہ آیا کرتے تو اسی طرح گیت کہتے۔ یوں وہ اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں بطورِ شاعرمقبول ہو گئے۔ وہ علاقائی بولی میں ٹپے، ماہیے اور بولیاں روانی سے کہہ لیتے تھے اور لڑکیاں ترنجن میں، شادی بیاہ کے موقع پر اُنہیں اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے کوشاں رہتیں۔ یہ دُرست ہے کہ اُن کی پہلی شائع ہونے والی اُردو نظم کا سالِ اشاعت 1931ء ہے۔ (جب وہ میٹرک میں تھے) لیکن وہ اس سے پہلے بھی اُردو شاعری کرتے رہتے تھے جس کے سامعین اُن کے بھائی، کزنز اور قریبی دوست ہی ہوتے تھے۔ اُن کے بھائیوں نے اُنہیں ’’پوئیٹ لاریٹ ‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔

احمد شاہ نے دورانِ میٹرک اپنے قریبی عزیزوں میں ایک ہی دن میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے ماں بیٹی کے انتقالِ پُرملال اور دونوں کے جنازے ایک ساتھ اُٹھنے پر نظمیں کہیں جو چچا حیدر شاہ کو بھی دکھائی گئیں۔ اُنہوں نے خوش گوار حیرت کا اظہار کیا کہ وزن اور بحر بالکل درست تھے اور قافیے ردیف کی بھی کوئی غلطی نہ تھی۔ ساتھ ہی تلقین کی کہ اقبالؔ اورظفرعلی خان کی طرح قومی نظمیں زیادہ کہا کرو۔ اس دوران احمد شاہ نے غزلیہ اشعار بھی کہے لیکن چچا سے چھپ کر صرف اپنے بھائیوں کو سُنائے۔ (میٹرک تک کی اُن کی یہ تخلیقات محفوظ نہیں ہیں)
1930ء میں چچا حیدر شاہ کا تبادلہ شیخو پورہ ہو گیا تھا۔ بچے اُن کے ہمراہ شیخو پورہ کی ایک کوٹھی میں آگئے اور یہیں کے ایک سکول میں داخل ہو گئے۔ یہاں ن م راشد بھی کچھ دن کے لئے انگریزی کے اُستاد رہے جن کے والد جناب فضلِ الہٰی چشتی وہاں کے ہیڈ ماسٹر تھے۔۔۔۔۔ چودہ برس کی عمر میں احمد شاہ کو قومی رہنما محمد علی جوہر کی اہمیت کا علم تھااور وہ اُن کے انگلینڈ میں کہے اس قول سے بہت متاثر ہوئے تھے کہ مجھے اپنے ملک کی آزادی کی طلب ہے میں غلام ہندوستان میں واپس نہیں جانا چاہتا۔۔۔۔۔ اور پھر واقعی وہ غلام ملک میں واپس نہیں آئے اور وہیں انگلستان میں فوت ہو گئے۔ احمد شاہ پر اس کا بہت اثر ہوااور اُنہوں نے اپنے احساسات کو نظم کی شکل دے دی۔ یہ پندرہ بیس اشعار کا نوحہ تھا۔ پیرزادہ محمد بخش اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ:
’’(اسے) اُس نے چچا جان کے سامنے رکھ دیا۔ وہ اسے پڑھ کر دم بخود رہ گئے پھر ضبط نہ کر سکے اور زار زار رونے لگے۔ اُنہوں نے شاہ کو اپنے سینے سے لپٹا لیا۔ اُن کے لئے یقیناً یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ شاہ، جو اُن کی ہیبت اور احترام سے اُن کے سامنے ’’جی، جی ہاں‘‘ کے سوا کوئی لفظ  نہیں بولتا تھا، ایک ایسا مرثیہ لکھ لایا ہے جس کی توقع دسویں جماعت کے ایک طالب علم سے نہیں کی جاسکتی۔ چچا جان کا ذوقِ شاعری نہایت اعلیٰ درجے کا تھا۔ اس لئے وہ شاہ کے لکھے ہوئے اس مرثیے کے جذبہ و احساس کے علاوہ اس کی فنی صحت سے بھی بہت متاثر ہوئے اُنہوں نے اُسی وقت کار گیراج سے نکلوائی اور لاہور تشریف لے گئے۔‘‘

چچا نے یہ نظم لاہور کے روز نامے ’’سیاست ‘‘(مدیر سیّد حبیب) کو دی۔ جو اس کے سنڈے ایڈیشن کے فرنٹ پیج پر نمایاں کتابت اور مختلف رنگوں کی آرائش کے ساتھ پیرزادہ احمد شاہ احمد کے نام کے ساتھ شائع ہوئی۔ اُس وقت اخبارات میں شعراء وادباء کی تحریروں پر اُن کے نام کے ساتھ اُن کے پوسٹل ایڈریس بھی دیئے جاتے تھے۔ احمد شاہ کو بہت سے تعریفی خطوط موصول ہوئے۔ احمد شاہ کے بڑے بھائی پیرزادہ محمد بخش لکھتے ہیں کہ :
’’مگر سب سے اہم داد علامہ اقبال کی تھی۔ چچا جان سیالکوٹ میں علامہ اقبال کے ہم مکتب رہ چکے تھے اور علامہ اقبال سے اُن کے قریبی مراسم تھے۔ ایک روز چچا جان لاہور میں علامہ اقبال سے ملنے گئے تو باتوں باتوں میں مولانا محمد علی جوہر کے ذکر کے ساتھ ہی شاہ کی اس (شائع شدہ) نظم کا ذکر بھی آیا اور علامہ اقبال یہ سُن کر حیران رہ گئے کہ یہ نظم چودہ برس کے ایک بچے نے لکھی ہے اور اس میں ایک بھی لفظ کی تصحیح کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔‘‘
یوں علامہ اقبال کی داد اوردیگر خطوط کے ذریعے حوصلہ افزائی سے نو عمر اور نو آموز احمد شاہ کو جوبے حدخوشی ہوئی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جنوری1931ء سے شاعری کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آخر تک برقرار رہا۔ چچا حیدر نے ہدایت کی تھی کہ قومی نظمیں لکھو۔ اس لئے آغاز میں غزلیں اور دیگر شاعری کہہ کر بھی احمد شاہ نے چھپائے رکھی۔ البتہ مشقِ سُخن جاری رکھی۔

احمد ندیم قاسمی بتاتے ہیں کہ :
’’جب میں میٹرک کے امتحان کی تیاری کررہاتھا، ایک بزرگ نے جن کا اسمِ گرامی مقبول انور داؤدی ہے، جو روز نامہ’’سیاست‘‘ میں کام کرتے تھے، مجھے خط لکھا کہ اُن کے نوجوان دوست شاطر غزنوی سے رہنمائی لوں۔ (وہ بھی ’’سیاست‘‘ میں لکھتے تھے)۔ ایک غزل بھیجی جو اُنہوں نے پوری کی پوری بدل دی اور مقطع میں اپنی تعریف شامل کردی۔ مجھے یہ مہربانی اچھی نہیں لگی، میں نے کلام بھیجنا بند کر دیا۔ البتہ اُن کے ایک احسان کو کبھی نہیں بھولوں گا کہ اُنہوں نے شروع ہی میں میرا تخلص ’’ندیم‘‘ تجویز کیا۔‘‘

یوں شاطر غزنوی کے مشورے سے اپنا تخلص ’’ندیم‘‘چُن لیا۔ 1931ء میں چچا حیدر نے سول سروس سے ریٹائر ہونا تھا۔ نواب آف بہاول پور نے چچا حیدر کو ریاست کے مشیرِ مال کی حیثیت سے بہاول پور آنے کی پیش کش کردی تھی۔ اسی لئے چچا نے پیرزادہ احمد شاہ ندیم کو بہاول پور کے صادق ایجرٹن کالج میں سالِ اوّل میں داخل کروا دیا اور عارضی طور پر کالج کے ہوسٹل میں رہائش کا بندوبست کروادیا ۔اسی اثناء میں حکومت نے چچا کو ملازمت کے دو سال اضافی دے دیئے۔ اب وہ 1934ء سے پہلے بہاول پور میں جوائن نہیں کر سکتے تھے۔ سو پیر زادہ احمد شاہ ندیم ہاسٹل میں ہی رہ کر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ یہاں اُن کی صلاحیتوں کو نکھار ملا۔ یہیں پر اچھے اساتذہ کی رہنمائی اور کچھ خوش ذوق دوستوں کی بدولت فارسی، اُردو اور انگریزی کے اہم شعراء اور ادباء کے ساتھ ساتھ دُنیا کے مختلف ادیبوں شاعروں کی تخلیقات بھی پڑھیں اور پرکھیں۔ مطالعہ وسیع تر ہوا۔ مواقع بھی خوب ملے۔ شاعری اور نثر کی تخلیقات کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ محمد خالد اختر لکھتے ہیں (جو ندیم کے کالج فیلو بھی ہیں اور ٹیٹوریل گروپ ’’سولجرز‘‘ کے ساتھی بھی ):
’’ندیم سینئر سٹوڈنٹ اور قابل ہونے کی وجہ سے ہوسٹل کا مانیٹر تھا۔ اور اوپر کی منزل پر ایک ATTIC میں رہتا تھا جو مانیٹروں کے لئے مخصوص تھی۔ کھڑکی میں سے ٹینس کورٹ اور کالج کے سبز لان نظر آتے تھے۔ ندیم (وہ اُن دنوں پیرزادہ احمد شاہ ندیم قاسمی تھا) دوسرے تیسرے روز ہمیں ایک نئی خوب صورت نظم پڑھ کر سُناتا۔ ان میں سے بعض نظمیں اُس نے اپنے پہلے مجموعہ کلام ’’جلال وجمال‘‘ میں چھاپیں۔۔۔۔۔ (مثلاً’’آخری سجدہ‘‘، ’’چرواہے‘‘اور
چند ایک اور)۔ ان نظموں کی سادگی اور پُرکاری سے متاثر نہ ہونے کا سوال نہ تھا۔ گہرے گونجیلے لہجے میں اس کی نظمیں سُن کر ہم سب ہی جانتے تھے کہ یہ شخص ’’جینئس‘‘ ہے‘‘۔

احمد شاہ نے اپنے لئے تجویز کردہ تخلص’’ندیم ‘‘ پسند کیا تھا۔ اب پیرزادہ احمد شاہ احمد نے اپنا ادبی نام احمد ندیم قاسمی رکھا۔ احمد اُن کے نام کا پہلا جزو تھا۔ ندیم تخلص ہوا جبکہ اپنے گاؤں کے بزرگ ‘قاسم’ کی آل سے ہونے کی وجہ سے قاسمی اپنایا۔ یوں احمد ندیم قاسمی کے نام کا خوب صورت، خوش آواز، جگمگاتا ہوا مرکب تیار ہوا جسے دُنیائے علم وادب میں حیاتِ جادواں حاصل ہوئی ۔

بہاول پور ہی میں اُن کے ایک با صلاحیت اور خوش ذوق دوست محمد خالد اخترنے بھی اُن کے ادبی ذوق کو اُجالنے میں اہم حصہ لیا۔ وہ مغربی ادب کا اچھا مطالعہ رکھتے تھے۔ دونوں نے مل کر خوب کتابیں پڑھیں اور اُن پر بحث مباحثہ کیا۔ خالد صاحب ہی کی تجویز پر ندیم صاحب نے افسانے لکھنا شروع کئے، جن میں سے کچھ اُس وقت کے ادبی رسائل میں شائع ہوئے۔ البتہ یہ بالکل آغاز کے تجرباتی مشقی افسانے تھے۔ محمد خالد اختر لکھتے ہیں:
’’1935ء میں بی۔اے کے نتیجے کے دنوں میں وہ (ندیم) دس پندرہ روز کے لئے ٹھہرنے کے لئے آیا۔ ہم شام کو ملتے، لمبی سیروں پر جاتے، ایک خزاں رسیدہ باغیچے میں بینچ پر بیٹھ کر دُنیا جہان کی باتیں کرتے۔ ایک بار اسی بینچ پر میں نے ندیم کو ایک کہانی لکھتے دیکھا۔ اُس نے اسے فخر سے پڑھ کر سُنایا۔ اس کا عنوان بھی عجیب طور پر میرے ذہن میں اٹک گیا ہے۔ اُس کا نام ’’کالا کوٹ ‘‘ تھا۔۔۔۔۔ کہانی مجھے پسند آئی اور میں ندیم کے کہانی لکھنے پر بڑا خوش تھا۔۔۔۔۔ یہ ندیم کی زندگی میں ایک نئی روش کی ابتداء تھی۔ ایک فیصلہ کُن لمحہ۔ اس کے بعد اُسے کئی کہانیاں لکھنا تھیں۔‘‘

قیامِ بہاول پور میں ندیم نے پہلے بہت خوش حالی دیکھی اور بعد میں اچانک تنگی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن شروع سے آخر تک اُنہوں نے قدر دانی اور مقبولیت حاصل کئے رکھی۔ خوش حالی اپنے چچا کی وجہ سے تھی کہ وہ ریاست کے افسر بھی مقرر ہو چکے تھے جبکہ انہیں قدردانی حاصل ہوئی اپنے اساتذہ کی لیاقت اور شرافت شناسی کی وجہ سے اور مقبولیت ملی اپنی زندگی سے بھر پور مہذب شخصیت اور اپنی نوع بہ نوع تخلیقات کی وجہ سے۔۔۔۔۔ وہ یہاں خوش تھے اور مستقبل کے لئے دیکھے گئے خوابوں میں رنگ بھرنے کی تیاری کر رہے تھے کہ سالِ سوم میں انہیں اپنے سر پرست چچا کے اچانک انتقال کا اور یک لخت تہی دست ہونے کی تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر لوگوں کے بدلتے ہوئے رویوں نے بھی اُنہیں حیران کر دیا۔ وہ اس اچانک تبدیلی سے بے حد دُکھی اور مایوس ہوئے۔ اب تعلیم جاری رکھنے کی اُمید بھی ختم ہو گئی۔ بڑے بھائی نے بی۔اے تو کر لیا تھا لیکن ابھی اچھی ملازمت کی کھوج میں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھار رہے تھے۔ ندیم کو اس بار یتیمی کا احساس بہت غم زدہ کر گیا۔ وہ مایوس ہو کر گاؤں چلے گئے اور کسی چھوٹی موٹی ملازمت کا سوچنے لگے۔ ندیم لکھتے ہیں:
’’اب میرے اقتصادی حالات ایسے نہ تھے کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ جب میں چچا کے انتقال کے بعد گاؤں گیا تو مجھے بتایا گیا کہ چچا تو میرے فورتھ ایئر کے آخری مہینے تک کی کالج فیس ایک عزیز کے پاس جمع کروا گئے ہیں! جس پر میں دوبارہ گاؤں سے واپس آگیا۔ یوں میں نے گریجویشن کی لیکن مرحوم اگر ایسا بندوبست نہ کرتے تو میں ایف۔اے سے آگے تعلیم حاصل نہ کر پاتا۔‘‘

ایسے وقت میں بڑے بھائی نے بھی حوصلہ افزائی کی:
’’یہ 1934ء کا واقعہ ہے جب چچا جان شیخو پورہ سے ریٹائر ہو کر گاؤں تشریف لائے مگر دراصل اُنہوں نے والیء بہاول پور کی پیش کش منظور کر لی تھی۔ چند روز کے لئے بہاول پور گئے۔ وہا ں اُس زمانے کے شیخ الجامعہ عباسیہ کے ہاں قیام فرمایا پھر ایک دن ہاسٹل میں شاہ کے پاس ٹھہرے (باپتا سے محروم نوجوان شاہ کے لئے چچا کی یہ شفقت اور مہربانی بے حد مسرت کا باعث ہوئی)۔ امیرِ بہاول پور سے ملاقات کے بعد دس روز کی رُخصت پر اور تیاری کرنے گاؤں واپس آگئے مگر ایک صبح کو نماز کے بعد انہیں زندگی میں پہلی بار دل کا دورہ پڑا، اور وہ انتقال فرما گئے۔ ہماری زندگیوں کے اس مینارہء نور کے بجھ جانے سے ہماری دُنیا پر مکمل تاریکی چھاگئی۔ شاہ، بہاول پور میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ اس سانحہ کی خبر سُنی تو فوراً گاؤں پہنچا اور نئے حالات کے پیشِ نظر تعلیم ترک کرنے پر تُل گیا۔ وہ کہتا تھا کہ اپنی تعلیم کو پرائیویٹ طور پر مکمل کر لے گا مگر ان حالات کا جواں مردانہ مقابلہ کرے گا۔ لیکن میں نے اُسے سمجھا بجھا کر واپس بہاول پور بھیج دیا تاکہ گریجویشن مکمل کر لے۔‘‘

کالج کے پرنسپل اور انگریزی ادب کے شفیق اُستاد نے بھی اصرار کر کے انہیں گاؤں سے بُلا لیا۔ یوں ندیم نے گریجویشن مکمل کر لی۔ اُن کے بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ:
’’آخر 1935ء میں بی۔اے پاس کرنے کے بعد وہ میرے پاس آگیا۔ انہی دنوں مجھے لاہور میں ملازمت مل گئی۔ میں لاہور آیا تو شاہ بھی میرے ساتھ تھا۔۔۔۔۔ میں نے اسے موقع ہی نہ دیا کہ اسے اپنے سرپرست چچا جان کے بچھڑنے کے بعد کی اَلم ناک صورتِ حال کا احساس ہو۔ مگر وہ شاعر اور فن کار تھا اور ان لوگوں کے احساس کی سطح اتنی ذکی الحس ہوتی ہے کہ وہ تو شاخ سے پتے کے ٹوٹ کر گرنے تک کا شدید تاثر قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ شاہ تاڑگیا کہ ۔۔۔۔۔ لالہ (شاہ مجھے لالہ کہتا ہے اور ہمارے ہاں لالہ، بڑے بھائی کو کہتے ہیں) پر جو اندھا دھند بوجھ ہے اسے کسی حد تک تو کم کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔ میں جانتا تھا کہ یہ ہم سب کے لاڈوں اور نازوں کا پالا ہوا شاہ کسی کے ماتحت رہ کر کام نہیں کر سکے گا۔ واضح رہے کہ ہمارے لاڈ پیار نے اسے بگاڑا نہیں تھا بلکہ اسے بلا کا خوددار بنایا تھا ۔۔۔۔۔ شدید بے روز گاری کا زمانہ تھا ۔۔۔۔۔ اس لئے بڑی مشکل کے بعد اسے الیکشن آفس میں محرری کی آسامی ملی۔‘‘

ندیم کا ارادہ تو تھا کہ وہ انگریزی ادب میں ایم۔اے کریں گے۔ اُنہوں نے لاہور کے دو اہم کالجوں میں درخواستیں دیں۔ میرٹ لسٹوں پر نام بھی آگیا لیکن بروقت داخلہ فیس کا بندوبست نہ ہو سکنے کی وجہ سے داخلہ نہ لے سکے۔ غیرت اور خودداری نے ہاتھ پھیلانے سے روکا۔ کچھ عرصے بعد اُن کے نہایت عزیز اور امیر دوستوں منوہر اور نند کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے گلہ کیا کہ ہم سے کیوں نہیں کہا۔ بہر حال تب تک وقت گزر چکا تھا۔
ندیم گاؤں لوٹ گئے۔ ملازمتوں کے اشتہار دیکھنے اور درخواستیں لکھ لکھ کر بھجوانے سے جتنی فرصت ملتی، وہ اپنی وادی میں گھومنے نکل جاتے۔ اُنہوں نے اس کے چپے چپے کا گہرا مشاہدہ کیا۔ اپنے آباؤ اجداد کی بستی ‘اسلام آباد’ کے آثار، جھیل کھبیکی کے کنارے، سکیسر پہاڑ کے دامن میں بکھرے دیکھے۔ قدرت نے ندیم کو مشاہدہ کرنے، اُسے بہترین یاداشت میں محفوظ رکھنے اور غور وفکر کر کے تجزیہ کرتے رہنے کی بے پناہ صلاحیتیں دے رکھی تھیں۔ وہ قلب و نظر وا کئے، مختلف لوگوں سے ملے، پھر پرندوں، پھولوں، کنکریوں، پتھروں کا۔۔۔۔۔ مختلف موسموں، رویوں، سوچوں، دُکھوں اور سُکھوں کا،غرض کہ ہر چیز کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ کیا جو بعد میں اُن کی عملی، سماجی اور ادبی شخصیت کے نکھار واظہار میں بہت مفید رہا۔ اس دوران دو تین ناولوں کے پلاٹ بھی اُن کی سوچ نے تعمیر کر لئے، لیکن معاش کی تلاش نے سکون سے کہیں ٹک کر بیٹھنے نہ دیا اور وہ خواہش اور صلاحیت کے باوجود ناول نہ لکھ سکے۔ البتہ شعر کہنے، افسانے لکھنے اور انہیں مختلف رسائل میں شائع کروانے کے لئے بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ساتھ ہی ساتھ مناسب ملازمت کی تلاش بھی جاری رہی۔’’جلال وجمال‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’1930ء سے 1939ء تک تقریباً سارے پنجاب کے چکر لگائے، خاندان کے پرانے مرّبیوں نے مسکرا کر دیکھا اور اظہارِ ہمدردی فرماتے سیر کو نکل گئے۔ ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنری، تحصیل داری، نائب تحصیل داری سے لے کر انجمنِ حمایتِ اسلام میں کلرکی تک کے لئے نت نئے ڈھنگ کی درخواستیں لکھیں۔ ریفارم کمشنر کے دفتر میں بیس روپے ماہانہ پر محرری کا کام کرتا رہا۔ ایک ہندو بزرگ کو (سیرتِ نبیؐ پاک پر) پانچ سو صفحات کی ایک کتاب چالیس روپے کے بدلے لکھ دی جو کہ اب تک (گیارہ بارہ برس بعد بھی) ان ہی کے نام سے شائع ہورہی ہے (ماشاء اللہ)۔ راولپنڈی میں ٹائپ سیکھتا رہا۔‘‘

اسی قیامِ انگہ کے دوران بیس برس کی عمر میں ندیم کو ایک معصوم سا جذباتی لگاؤ بھی ہوا۔ اس کا دورانیہ مختصر لیکن اثر تا دیر رہا۔ وہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’1936ء ،1937ء کے درمیانی عرصہ میں میری الم ناک زندگی کے تاریک اُفق پر اچانک ایک کوندا سا لپکا، اور عام کوندوں کی طرح، بجائے چمک کر گھل جانے کے، اندھیروں کا ایک سنہری عنوان بن کر وہیں جم کر رہ گیا۔ احساسات میں بالیدگی پیدا ہونے لگی، دُکھ سُکھ کے معیار بدلنے لگے، زندگی پر سے گرد و غبار کی تہیں اُکھڑنے لگیں اور میری ذہنی کلبیت ایک خوش گوار، نرم اور معصوم تبسم میں گھل کر کھو جانے لگی۔ یہی وہ دور ہے جب مجھے شاعری کی نازک ترین گہرائیوں کا احساس ہوا ہے، اور یہی وہ دن ہیں، جن سے میرے فن کی ہر رنگینی عبارت ہے۔‘‘
’’
1937ء کے اواخر میں یہ کوندا تاباں رہنے کی ایک دردناک اور مایوسانہ کوشش کے بعد بجھ کر رہ گیا اور میرے خیالوں کے گلابی کُہرے میں ایسی سرمئی لہریں دوڑا گیا جن کاآغاز کوندے کا غروب تھا اور انجام ہنوز ناپید ہے۔‘‘

یوں اپنی عمر کے اکیسویں برس میں اُن کے دل کو یہ صدمہ بھی سہنا پڑا جس کی وجہ بھی اقتصادی صورتِ حال کی خرابی تھی۔ ابھی تک کوئی ڈھنگ کی ملازمت ندیم کے دل کو متاثر نہ کر سکی۔ دنیا بھر کی تناؤ بھری کیفیت میں ملازمتیں ملنا دُشوار ہو گیا تھا لیکن بہر حال تلاش جاری رہی۔ 1937ء سے 1939ء کے دوران ندیم اکثر لاہو ر میں بھی قیام پذیر رہے۔ ادبی رسائل میں اُن کی شاعری اور افسانوں کی باقاعدگی سے اشاعت نے اُنہیں ادبی حلقوں میں پہچان دے دی۔ وہ اختر شیرانی اور حامد علی خان کے خلوص سے بھی متاثر ہوئے۔ بالآخر پیاسا کنویں کے پاس اس طرح پہنچا کہ، ندیم لکھتے ہیں:
’’برادر گرامی حضرت مولیٰنا غلام مرشد صاحب کے توسط سے مولانا عبدالمجید سالک، مدیر روزنامہ’’انقلاب‘‘ کے ہاں پہنچا اور اچانک میں نے محسوس کیا کہ میری زندگی کی تمام منزلیں متعین ہو گئی ہیں۔ ممدوح کی محبوب شخصیت نے میری ادبی زندگی کے ہر شعبے پر گہرے، پائیدار اور اَن مٹ اثرات ڈالے ہیں۔‘‘
’’مجھ پر میری شخصیت اور میری شاعری پر سب سے بھاری احسان، گرامی قدر مولانا عبدالمجید سالک نے کیا ۔۔۔۔۔ اگر میری زندگی میں وہ وارد نہ ہوتے تو میں یہاں وہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا عملاً ختم ہو جاتا۔ میں جو کچھ بھی ہوں، اُن ہی کی محبت اور حوصلہ افزائی کا ثمر ہوں۔‘‘

جہاں تک ملازمتوں کی بات ہے تو ندیم جیسے ہمہ وقت فن کار کے لئے غیر تخلیقی ملازمتیں انوکھا بوجھ تھیں۔ ندیم ایک انٹر ویو میں بتاتے ہیں:
’’ملازمت کا پہلا تجربہ نہایت تلخ تھا۔ میں ریفارمز کمشنر کے دفتر میں بطور ’’محرر‘‘ بھرتی ہوا (1937ء میں) بیس روپے ماہانہ تنخواہ تھی۔ دفتر گلاب سنگھ پریس کے قریب ایک تکون سی عمارت کی بالائی منزل میں تھا۔ افسر ایک پٹواری تھا جو پلنگ پر بیٹھتا تھا اور ہم محرر لوگ نیچے فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر ووٹروں کی فہرستوں کی چیکنگ کرتے تھے۔ دن بھر فلاں ولد فلاں سکنہ فلاں کی رٹ لگی رہتی تھی۔ ایک روز پٹواری نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ پریس میں جاکر روشنائی بھر لاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ اس کام کے لئے چپڑاسی موجود ہے جو باہر برآمدے میں بیٹھا ہے۔ میں محرر ہوں، میں محرری کا ہی کام کروں گا۔۔۔۔۔ اور اُس نے میری چھٹی کردی۔‘‘

’’ٹیلی فون آپریٹر کے امتحان میں کامیاب ہونے پر مجھے اوکاڑہ میں ٹیلی فون آپریٹر مقرر کردیا گیا۔ مگر میں اس ملازمت کو نو دن سے زیادہ برداشت نہ کر سکا ۔‘‘
(تفصیل ہاجرہ مسرور کے مضمون ’’ندیم اور غمِ روزگار‘‘)

1939ء میں ایک محترم اور مشفق پھوپھی زاد بھائی کپیٹن ملک امیر حیدر خاں صاحب نے بڑے جان جوکھوں کے بعد محکمہء آب کاری میں میرا نام بطور سب انسپکٹر منظور کروا لیا۔۔۔۔۔3 جولائی 1939ء کو میں نے ملتان کے دفترآب کاری میں کام کرنا شروع کیا، بھائی کرشن چندر نے پیغام بھیجا۔۔۔۔۔’’بے کاری سے آب کاری بھلی۔۔۔۔۔‘‘

حضرت جوش ملیح آبادی نے تحریر فرمایا:
’’جناب قبلہ و کعبہ کی آب کاری ہے ۔۔۔۔۔ شراب جو نہ پیئے، آج کل وہ ناری ہے۔‘‘

سعادت حسن منٹو نے اپنے اخبار ’’مصور‘‘ میں سرخی لگائی ’’شاعر محتسب بن گیا‘‘

’’میں خانیوال اور ملتان میں بھنگ، چرس، افیون اور شراب کے کیس پکڑتا پھرا، ظاہر ہے یہ میرے ذوق کا ماحول نہیں تھا۔ محترم سالک صاحب کو لکھا۔ اُنہوں نے ارشاد فرمایا کہ استعفیٰ دے کر لاہور آجاؤ۔ بھائی جان (پیر زادہ محمد بخش) سے اجازت چاہی ۔اُنہوں نے بھی فوراً اجازت دے دی اور میں لاہور آگیا۔‘‘

پیرزادہ محمد بخش اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’یہ شاید 1941ء کا ذکر ہے جب اُس نے مجھے ملتان سے لکھا کہ ’’لالہ اسلام جن نشوں سے ہمیں منع کرتا ہے، اُن ہی کے ٹھیکوں کی نگرانی میرے ذمے ہے۔ پھر مجھے بے حد غریب ۔۔۔۔۔ ماتم کی حد تک قلاش لوگوں پر چھاپے مارنے پڑتے ہیں اور وہ میری وجہ سے چھ چھ مہینے، سال سال بھر کے لئے جیل چلے جاتے ہیں اور ان لوگوں کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ اُنہوں نے افیم کی ایک گولی یا بھنگ کا ایک گلاس کیوں فروخت کیا جبکہ اس فروخت کا حق تو صرف حکومت انگلشیہ کو پہنچتا ہے۔ میں ہر چھاپے، ہر استغاثے اور ہر مقدمے کے فیصلے کے بعد اپنے آپ پر لعنت بھیجتا ہوں۔ مجھے اس دوزخ سے نکالئے اور مجھے مستعفی ہونے کی اجازت دیجیئے۔ آج میرے انسپکٹرصاحب نے اپنے کمرے سے مجھے آواز دی۔ میں مصروف تھا سُن نہ سکا اُنہوں نے جلتے ہوئے سگریٹ کا ٹکڑا انگوٹھے پر چڑھا کر میری طرف پھینکا جو میرے گال پر لگا۔ پلٹ کر میں نے پوچھا کہ یہ حرکت کس نے کی ہے؟ انسپکٹر صاحب نے جواب دیا میرے پکارنے پرآپ نے کوئی جواب نہ دیا اس لئے میں نے آپ پر سگریٹ پھینکا (آپ شاعر ہیں نا) کہ شاید آپ اس طرح متوجہ ہو سکیں۔ میں نے سامنے پڑے ہوئے قلم دان میں سے ایک دوات اُٹھا کر ’یہ کہتے ہوئے‘ انسپکٹر صاحب کے سینے پر دے ماری کہ جواب عرض ہے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ انسپکٹر صاحب اپنی آلودہ شیروانی کے ساتھ ایکسائز آفیسر کے ہاں پہنچے ۔مجھے بُلایا گیا اور میں نے ساری صورتِ حال بتا کر عرض کیا کہ میں آئندہ بھی ایسی پکار کا یہی جواب دوں گا۔ ایکسائز آفیسر معقول آدمی ہے۔ اس نے انسپکٹر صاحب کو خاصا ڈانٹا ہے مگر اب میں اس ملازمت میں نہیں رہنا چاہتا۔ میرے لئے مولانا سالک صاحب نے لاہور میں ہفت روزہ ’’پھول‘‘اور ہفت روزہ ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کی ادارت کا بندوبست بھی کرلیا ہے۔ بس آپ کی اجازت کا منتظر ہوں‘‘۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ میں نے اُسے فوراً اجازت دے دی۔‘‘

ندیم کی ڈائری کا ایک ورق ملاحظہ کیجیئے۔ ندیم محکمہء آب کاری جیسا ’’مفید‘‘سمجھا جانے والا محکمہ چھوڑ کر پھولے نہیں سمائے:
’’آج میری زندگی کا زریّں ترین دن ہے۔ آج میں ا حمد شاہ ایکسائز سب انسپکٹر کی بجائے صرف احمد ندیم قاسمی ہوں! تجربات کا ایک انبار سمیٹے میں اپنے ماضی کے کھنڈروں سے رُخصت ہو رہا ہوں ۔۔۔۔۔20 ستمبر1942ء۔‘‘

ندیم کو اپنی پسند کا کام مل گیا اور انہوں نے قلم سے باقاعدہ محنت اور مشقت کی۔ ہاجرہ مسرور لکھتی ہیں:
’’دو ہفت روزے اور ایک ماہنامہ مرتب کرنے کے علاوہ اُنہوں نے جی بھر کر نظمیں،غزلیں، قطعات اور افسانے لکھے۔ اسی زمانے میں راجہ مہدی علی خان نے ندیم بھیّا کی بسیار نویسی پر لطیفے گھڑے تھے۔ وہ دن رات محنت کرتے اور کم سے کم آرام کرتے۔ اس کا نتیجہ نروس بریک ڈاؤن کی صورت میں نکلا۔‘‘

جبکہ ندیم لکھتے ہیں:
’’1943ء میں مشہور ترقی پسند رسالہ’’ادبِ لطیف‘‘(لاہور) کی ادارت سنبھالی۔ 1944ء میں سالنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے ایک مضمون سے خفا ہو کر حکومتِ پنجاب نے گرفتار کر لیا۔ یہ مقدمہ ایک برس چلتا رہا۔ مئی 1945ء میں مقدمہ سے بری ہو کر گاؤں گیا اور فروری 1946ء میں علالت کے مد نظر ادب لطیف کی ادارت چھوڑ دی۔‘‘

دریں اثناء، احمد ندیم قاسمی کے بڑے بھائی پیرزادہ محمد بخش جب لاہور آئے تو سخت محنت، کڑی مشقت، مقدمات کے سلسلے کی اُلجھن اور سب سے بڑھ کر ایک ناتمام محبت کے شدید الم سے نبرد آزما ندیم کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میں اور عزیزی ظہیر بابر اُسے دیکھنے لاہور آئے تو وہ اتنا کم زور ہو گیا تھا کہ پہچانا ہی نہیں جاتا تھا۔ مجھے شبہ ہے کہ ان دنوں اس کے ذہن پر کوئی بوجھ تھا اور اُسے کوئی شدید جذباتی صدمہ پہنچا تھا اور وہ اس قسم کے شعر کہنے لگا تھا کہ:

؂ جہاں پناہ مجھے بازوؤں میں لے لیجئے
مری تلاش میں ہیں گردشیں زمانے کی

بہر حال وہ شاعر جو کافی عرصہ تک سگریٹ بھی مجھ سے چھپ کر پیتا رہا، مجھے کیا بتاتا۔ میں ڈاکٹر سے دوائیں لے کر اور سب ادارتیں چھڑوا کر اسے گاؤں لے آیا۔‘‘

حالات کی اس کٹھالی سے ندیم کا سونا کندن بن گیا لیکن سب سے پہلے محمد خالد اختر کا ایک شکوہ بھرا بیان پڑھیے:
’’ندیم حد درجہ مخلص ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو بت پرستی کی حد تک پوجنے لگتا اور آسانی سے متاثر ہو جاتا۔ اس نے ہمیشہ زندگی میں شدید جذباتی دوستیاں بنانے کی کوشش کی ہے۔‘‘

جوش صاحب لکھتے ہیں:
’’جہاں تک اربابِ نظر کا تعلق ہے وہ تو ایک نظر میں پہچان جاتے ہیں کہ یہ شاعر ہے، وہ متشاعر۔ اب رہی عامۃ الناس کی بات۔۔۔۔۔ سو اس باب میں یہ عرض کروں گا کہ جب وہ کسی مدعی شاعری سے دو چار ہوں، تو سب سے پہلے اس بات کی تحقیق کریں کہ اس کا کردار کیا ہے۔۔۔۔۔ اس کا اقارب و احباب سے برتاؤ کیا ہے اور اس کھوج میں اگر اُن کے علم میں یہ بات آجائے کہ وہ دروغ گفتار، خلوص بیزار، جفا شعار، زر پرستار، فریب کار اور غدّارہے تو آنکھیں بند کر کے یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ ہر گز شاعر نہیں ہے۔ شاعری وانسانیت کے اِس پیمبرانہ معیار پر نگاہ کر کے جب قاسمی کی جانب نظر اُٹھاتا ہوں تو بِلا خوفِ ابطال یہ نعرہ لگاتا ہوں کہ قاسمی حقیقی شاعراور انسانیت اور شعریت کا ایک ایسا دل کُشا سنگم ہے جس کا اور چھور نہیں مل سکتا۔‘‘

یہ اسی گہری محبت کا کمال تھا کہ ان کی انسان دوستی، انسانوں سے بے پناہ محبت میں تبدیل ہو گئی:

؂ ایک چہرہ سبھی چہروں میں نظر آتا ہے
اس بھروسے پر ہر انسان ہے دل بَر اپنا
(ندیم)

ندیم کے مزاج میں رجائیت اور اُمید سے وابستگی شروع ہی سے مستحکم تھی وہ ڈوب کر بھی، اپنی قوتِ ارادی کے بل بوتے پر، پھر سے اُبھر آیا کرتے رہے۔ اسی لئے 1945ء کے آخر میں جب ندیم نے غم کی گہری ظلمت سے سر اُٹھایا تو ارد گرد تحریکِ آزادی کی روشنی کو اُبھرتے پایا۔ تب اُنہوں نے تمام توجہ اس کے لئے وقف کردی اور1946ء میں ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت سے سبکدوشی کے بعد مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان کے لئے عملی جد وجہد کا آغاز کیا۔ اس طرح احمد ندیم قاسمی کے عملی کردار کا ایک توانا، پُر حوصلہ اور جرّی رُخ اُبھر کر نمایاں تر ہوا۔ پیر زادہ محمد بخش گواہی دیتے ہیں کہ:
’’اس کی آدھی ’’علالت‘‘ تو امیّ کے سینے سے لگ کر ہی ختم ہو گئی اور باقی علالت کو تحریکِ پاکستان اُڑا کر لے گئی (وہ پھر سے پہلے کی طرح صحت مند، توانا اور پُر جوش تھا) قائداعظم کی رہنمائی میں تحریکِ پاکستان زوروں پر تھی۔ شاہ، جس نے انسان دوستی، اسلام دوستی کے راستے سے حاصل کی ہے۔ اس تحریک کے نظریات سے متفق تھا۔ اسے اختلاف تھا تو یہ کہ اس کی صوبائی قیادت صد فی صد امراء کے ہاتھ میں تھی مگر وہ ایک بڑے مقصد کے لئے اس اختلاف کو پی جانے پر تیار ہو گیا۔ مسلم لیگ کا سبز جھنڈا کاندھے پر رکھا اور اپنے گاؤں کے نوجوانوں کا جلوس لئے علاقہ سون سکسیر کے گاؤں گاؤں میں گھومنے لگا اور یوں وہ ضلع سرگودھا کے اس کوہستانی علاقے میں ایک ’’خطرناک‘‘ مہم کا لیڈر بن گیا۔‘‘
’’۔۔۔۔۔ ہمارا علاقہ تو ویسے ہی پسماندہ اورراضی برضا قسم کا علاقہ تھا۔ یہاں تو پولیس والے ہر اُس شخص کو حوالات میں بند کرنے کو تیار رہتے تھے جو مسلم لیگ، قائد اعظم اور پاکستان کا نام بھی لیتا تھا۔ لیکن شاہ کو نہ تو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی ہر طرف سے اُٹھتی ہو ئی جھنکار خوف زدہ کر سکی اور نہ اپنے خاندان کے بزرگوں کی شدید ناراضی اس کے قدموں کو جکڑ سکی۔ وہ بے دھڑک اس میدان میں کودا۔ اب اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس دوران نہ صرف اس نے جلوس نکالے اور جلسے کئے بلکہ ان گنت نظمیں لکھیں اور ترانے کہے اور اپنے علاقے کی بولی میں ٹپے تصنیف کئے۔ لوک گیتوں کی غیر فانی صنف ’’ماہیا‘‘تک کو اس نے تحریکِ پاکستان کو آگے بڑھانے اور چلانے کے لئے استعمال کیا۔۔۔۔۔ وہ اپنے فن کو قیامِ پاکستان اور آزادیء وطن کے لئے موثر طور پر استعمال کررہا تھا۔ ساتھ ہی اُس نے لاہور کے اخباروں کو اُس علاقے کی سرگرمیوں سے باقاعدہ طور پر آگاہ رکھنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ یوں سمجھئے کہ یہ اس کی صحافت کا آغاز تھا۔ انہی رپورٹوں سے متاثر ہو کرحمید نظامی صاحب نے شاہ کو ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارے میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی تھی مگراُس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ اس وقت اخبار کے دفتر میں کرسی پر بیٹھنے سے زیادہ مفید اور کار آمد کام کر رہا ہے۔۔۔۔۔ معروف اخبار نویس میاں محمد شفیع (م۔ش) اور میر نور احمد گواہ ہیں کہ شاہ اور علاقے کے دوسرے کارکنوں کی وجہ سے لیڈروں کے استقبال میں ایک اتنا بڑا جلوس نکلا کہ دیہاتی علاقوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔‘‘
’’اس دور افتادہ وادی میں باقاعدہ پنڈال کا انتظام اور لاؤڈ سپیکروں کی فراہمی اور کچی دیواروں پر لگے ہوئے بڑے بڑے اشتہاروں اور خوب صورت اُردو میں لکھے ہوئے طویل وعریض سپاس نامے کو کون فراموش کر سکتا ہے؟ اس منظر کی کیفیت میں کیا بیان کروں گا۔ شاہ سے پوچھئے ۔‘‘

احمد ندیم قاسمی بتاتے ہیں کہ:
’’۔۔۔۔۔ میں نے اپنے علاقے میں تحریکِ پاکستان کے لئے بہت زیادہ کام کیا ۔۔۔۔۔ میرا گاؤں وادیء سون سکسیر میں ہے۔ میں نے وادی میں اپنے دوستوں کے ہمراہ تحریکِ پاکستان کو بڑے زور سے چلایا۔ بڑے بڑے جلسے کئے اور جلوس نکالے۔ ہم نے ان جلسوں میں اس زمانے کے نامور سیاسی لیڈروں کو بلوایا (علی گڑھ سے مسلم طلباء کے لیڈروں پر مشتمل گروہ بھی تربیت دینے آیا) ۔۔۔۔۔ لیڈروں نے بڑی زور دار تقریریں کیں۔ ہم اُس وقت نوجوان تھے اور سمجھتے تھے کہ لیڈر جو کچھ کہہ رہے ہیں، سچ کہہ رہے ہیں لیکن بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ جن کے لیے میں نے لمبے جلوس نکالے تھے، اُنہوں نے ہی (قیامِ پاکستان کے بعد) میری گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط فرمائے ۔۔۔۔۔ ہمیں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اس ایکٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملزم کوئی ایسا کام کرنے والا ہے جو امنِ عامہ کے خلاف ہے۔‘‘

پیرزادہ محمد بخش کہتے ہیں:
’’انہی دنوں برادرِ محترم سجاد سرور نیازی نے جو اس وقت پشاور ریڈیو سٹیشن کے ڈائریکٹر تھے، شاہ کوپشاور بلوا بھیجا۔ شاہ لاہور واپس جانا چاہتا تھا مگر میرے سمجھانے بجھانے پر وہ مان گیا اور 1946ء کے اواخر میں نیازی صاحب کے پاس چلا گیا۔ اُن کی بے پایاں محبت نے شاہ کو مسخر کر لیا۔‘‘

ندیم ابھی پشاور ہی میں تھے کہ 1947ء کے اگست میں پاکستان بن گیا۔ وہ کہتے ہیں :
’’اسی دوران جب پاکستان بنا تو ریڈیو پاکستان پشاور سے پہلا قومی نغمہ میرا لکھا ہوا نشر ہوا جسے معروف گلوکارہ نا ہید نیازی کے والد سجاد سرور نیازی نے گایا تھا۔‘‘

ریڈیو سے وابستہ خاطر غزنوی نے کہا:
’’14۔اگست 1947ء کو پشاور ریڈیو اسٹیشن سے جو سب سے پہلے تین ترانے نشر ہوئے، وہ احمد ندیم قاسمی کے تھے، جس میں سے ایک ‘پاکستان بنانے والے،پاکستان مبارک ہو بھی تھا’‘‘۔

ایک مضمون ’’چند یادیں‘‘ میں ندیم بتاتے ہیں کہ:
’’میں پشاور ریڈیو سٹیشن میں پاکستانی نغمے لکھ رہا تھا جب ایک پروگرام اسسٹنٹ نے ریڈیو اسٹیشن کی چھت پر چڑھ  کر اپنے ریوالور سے ہو ا میں فائر کیے اور اسٹیشن ڈائریکٹر نے سبز جھنڈا کھول دیا۔ یہ 13 اگست 1947ء کی تاریخ تھی اور اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ دنوں تک میں سرشاری کے عالم میں رہا اور پھر ایک دن ریڈیو اسٹیشن سے واپس آتے ہوئے میں نے سڑک پر ہندوؤں اور سکھوں کی لاشیں دیکھیں ۔۔۔۔ اور پھر جب پشاور شہر میں ہندؤں کے محلے کو آگ لگا دی گئی تو میں صدر پشاور میں حواس باختہ بیٹھا ہوا کچھ سوچ رہا تھا۔ تب ایک دوست کی ننھی سی لڑکی میرے پاس بھاگی آئی، مجھ سے چمٹ گئی اور روتے ہوئے بولی۔’’چچا جان دیکھئے آسمان جل رہا ہے‘‘۔
’’۔۔۔۔ ملک کی سیاسی صورت حال نے مجھے قدم قدم پر چکرا ڈالا۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ ہم کہا ں جا رہے ہیں؟ ہم کہاں جا کر رکیں گے؟ ۔۔۔۔ میں اپنے وطن کی امنگوں اور ولولوں کی تصویر کھینچنا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کے ہر روز نئے سے نئے فیچروں کے ذریعے اپنے رہنماؤں کو اُن کے وعدے یاد دلاتا رہوں مگر جب میں نے اِن امور میں اپنے قلم کی نوک کو مڑا ہوا پایا تو میں پشاور سے بھاگ آیا اور لاہور میں آکر میں نے بہت کچھ لکھا ۔۔۔۔‘‘

پشاور سے لاہور آنے کی دوسری وجہ ندیم نے یہ بتائی کہ:
’’پھر جب میری منہ بولی بہنیں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستورترکِ وطن کر کے لکھنؤ سے لاہور آگئیں تو میں ان کی سرپرستی کی خاطر پشاور سے مستعفی ہو کر (مارچ 1948ء میں) لاہور آگیا۔ یہاں ہاجرہ بہن نے اور میں نے محمد طفیل کے تعاون سے رسالہ ’’نقوش‘‘ کا اجراء کیا۔ 1949ء کے آخر تک یہ سلسلہ چلا‘‘۔

احمد ندیم قاسمی کی منگنی برسوں پہلے اپنے قریبی عزیزوں میں وادئ سون سکیسرہی کے ایک گاؤں سُرکّی میں ہو چکی تھی۔ 4 جولائی 1948ء کو رابعہ اُن کی شریکِ حیات بن گئیں۔ وہ سلیقہ مند، باہمت خاتون تھیں اور کڑے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کر نے کی جرأت رکھتی تھیں۔ رابعہ نے گھر اور بچوں کی ذمہ داریاں بخوبی سنبھال کر ایک طرح سے ندیم کو بے فکر کر دیا۔ ذرائع آمدن محدود تھے جبکہ ندیم کا ہاتھ کھلا تھا۔ وہ دوسروں کی مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ اسی لئے دونوں میں طے پایا کہ مشاعروں کی آمدنی اور انعامات کی رقم ندیم اپنی مرضی سے خرچ کریں گے جبکہ کالم نگاری یا ملازمت کی آمدن زیادہ ترگھر پر خرچ ہو گی اور رابعہ ندیم نے کفایت شعاری سے کام لے کر گھر بھی تعمیر کروایا، آہستہ آہستہ اپنے بچوں کو ضروریاتِ زندگی بھی مہیا کرنے کی سبیل نکال لی۔ اسی میں ہی اللہ تعالیٰ نے خوب برکت دی اور پھر انہوں نے آخر تک تنگی نہیں دیکھی۔ دونوں نے بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کی خاطربہت کچھ سہا۔ محنت بھی کی۔ پھر تینوں بچوں کی شادیاں بھی کیں۔ پوتا پوتیاں، نواسے نواسیاں دیکھیں۔1987ء میں دونوں نے حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ غرض یہ کہ دونوں نے تقریباً پینتالیس برس مختلف حالات کے اُتار چڑھاؤ کے باوجود مناسب طریقے سے اور ٹھیک ٹھاک انداز میں گزارے۔ رابعہ ندیم کا انتقال اپریل 1992ء میں ہوا۔

احمد ندیم قاسمی 1944ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوئے۔ یہ اُن کی زندگی کا نہایت اہم فیصلہ تھا۔ جس کے دُوررس اثرات اُن کی زندگی اور فن پر مرتب ہوئے۔ 1949ء میں منعقدہ کُل پاکستان کانفرنس میں وہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین پنجاب کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے جبکہ 1952ء میں اُنہیں جنرل سیکرٹری انجمنِ ترقی پسند مصنفین پاکستان منتخب کیا گیا۔ ندیم ایک انٹرویو میں اس تحریک کے بارے میں نوجوانوں کے سوالات کے یوں جوابات دیتے ہیں:

’’ترقی پسند تحریک کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ انسان کا کھویا ہوا وقار بحال کیا جائے، بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ بد سلوکی ختم کی جائے اور ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جس میں استحصال کا نام و نشان نہ ہو۔ ہر شخص معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔‘‘
’’ہماری تحریک کے مقاصد ذہنوں میں نفوذ کر گئے تھے اور اب بھی اس تحریک کے اثرات نظر آتے ہیں۔ بے شک تنظیم ختم ہو گئی مگر تحریک اب بھی جاری و ساری ہے، جو بھی نیا نوجوان لکھنے کی طرف آتا ہے، وہ نہایت خوب صورتی کے ساتھ نثر، افسانے اور نظم میں انہی خیالات کا اظہار کرتا ہے۔‘‘
’’اس تنظیم (انجمن ترقیِ پسند مصنفین) کے لئے اتنا کچھ کیا، دوبار جیل بھی گیا۔ ایک بار
1951ء میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے دور میں اور دوسری دفعہ ایوب خان کے دور میں (1958ء)۔ ہم نے بے روز گاری بھی دیکھی۔ اس لئے کہ ریڈیو تک میں ہم پر پابندی تھی (ٹی وی اُس زمانے میں نہ تھا) نہ تقاریر لکھ سکتے تھے، نہ مشاعرہ کر سکتے تھے۔ ہم نے بہت مشکل وقت بھی گزارے ہیں مگر اس کے باوجود ہم اپنے نظریئے پر قائم رہے۔‘‘
احمد ندیم قاسمی نے حسبِ معمول ہر تعلق کی طرح اس تعلق کو بھی آخر تک بحسن وخوبی نبھایا اور ہر کڑے وقت میں بھی اس تحریک کا دفاع کیا۔ یہ تھے 1950ء کی دہائی کے ابتدا تک ندیم کی زندگی کے چیدہ چیدہ معاملات۔ اسکے بعد کم وبیش 56 برس کا طویل سفر ہے۔ جس کا تفصیلا جائزہ لینا اس محدود جگہ پر مشکل ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کی ندیم اُن چند لوگوں میں سے ہیں جو اپنے نظریئے، اپنی انسان دوستی، اپنی فن شناسی اور اپنے وطن سے محبت کو ہمیشہ سنبھالے رہے۔ اُنہوں نے ان کے لئے کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی اُن کی جرأت، خودداری، خلوصِ نیت اور عزتِ نفس کا ثبوت ہے۔ ندیم تمام عمر نہ صرف دُنیا بھر کے انسانوں کے بارے میں لکھتے رہے بلکہ اپنے وطن اور اپنے ہم وطنوں کے ہر دُکھ سُکھ میں بھی قلم اور عمل کے ذریعے برابرکے شریک رہے۔