قاسمی کہانی – اقتباسات کے دریچوں سے
ندیمؔ یومِ پیدائش
20 نومبر 1916ء ۔ جائے پیدائش: گاؤں ’’انگہ‘‘وادیء سون سکسیر، ضلع خوشاب، صوبہ پنجاب، اسلامی جمہوریہ پاکستان
ندیمؔ نام
یہ فقط میرا تخلص ہی نہیں ہے، کہ ندیمؔ
میرا کردار کا کردار ہے اور نام کا نام
(ندیمؔ)
والدین نے احمد شاہ نام رکھا۔ پہلی شائع ہونے والی نظم (روز نامہ:’’سیاست‘‘ میں جنوری 1931ء لاہور۔ مدیر سیّد حبیب) پیرزادہ احمد شاہ احمدؔ کے نام سے شائع ہوئی۔ پندرہ برس کے احمد شاہ نے روز نامہ ’’سیاست‘‘ سے وابستہ مقبول انور داؤدی کے کہنے پر اسی اخبار میں لکھنے والے ان کے نوجوان غزل گو دوست شاطرؔ غزنوی کو خط لکھا۔ جنہوں نے تخلص ندیمؔ تجویز کیا۔ یہ احمد شاہ کو بے حد اچھا لگا۔ تب نام کا پہلا حصہ’’احمد‘‘ برقرار رکھتے ہوئے ’’ندیمؔ‘‘ تخلص کیا اورخاندان کے بزرگ قاسم کی آل سے وابستگی کی وجہ سے ’’قاسمی‘‘ اپنایا۔ یوں ادبی نام احمد ندیم قاسمی طے کیا۔ اس حسین اور خوش قسمت نام کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔
بقول جمیل یوسف:
’’احمد ندیمؔ قاسمی کے نام میں ایک طرح کی موسیقت ہے۔۔۔۔۔ اُن کا نام پڑھا تو محسوس ہوا جیسے کسی غزل کا مصرع ہے۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ نام گرامی دو تین بار گنگنانے کے انداز میں دُہرایا۔۔۔۔۔ (یہ) نام زبان پر آتے ہی نقش ہو گیا اور میرے شعور کا حصہ بن گیا۔ بہت کم شخصیات کے ناموں میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اُنہیں دیکھتے ہی یا اُن کا نام سُنتے ہی وہ ہمیشہ کے لئے آپ کے شعور کا حصہ بن جائیں‘‘
ڈاکٹر محمود احمد زئی لکھتے ہیں:
’’احمد شاہ ایک فرد کا نام ہے۔ اس نے ذکاوت سے، ذہانت سے اور استقامت سے کام لے کر احمد ندیمؔ قاسمی کا مقام حاصل کر لیا ہے، جو کسی فرد کا نہیں بجائے خود ادارے کا، دبستان کا، نظرئیے کا اور فکری منزل کا نام ہے، (80) اسیّ سال میں اس فرد نے ادارہ بنتے بنتے اپنے نقوش ادب ومعاشرت سے لے کر صحافت وسماج تک جس طرح مرتسم کئے، وہ ایسے ہیں جن کی قدر کی جائے، جنہیں فروغ دیا جائے اور جن کی پاسداری کی جائے۔‘‘
ڈاکٹر صابر آفاقی کا کہنا ہے:
’’بابا قاسمی ایک فرد کا نام نہیں،ایک تحریک کا نام ہے۔ اس نے دنیا بھر کے مظلوموں،غلاموں اور پسے ہوئے لوگوں کے حق میں آواز اُٹھائی ۔۔۔۔۔ اپنی مٹی سے پیار قاسمی کے خمیر میں شامل تھا۔۔۔۔۔ قاسمی محبت کا نام تھا۔‘‘
افضل توصیف یوں اظہارِخیال کرتی ہیں کہ:
’’ایک خوب صورت نام، لاہور کے بڑے ناموں میں ایک نام، اس نام کے ساتھ کتنے اور نام جڑے ہوئے ہیں کتنی ہستیاں اور حیثیتں لے کر چلتا تھا، یہ نام کہ ایک شاعر تھا، افسانہ نگار، کالم نویس، دانش ور اور ایڈیٹر اس نام کے ساتھ جڑے تھے۔ کئی اور نام اور تاریخ کے کئی اور باب، کئی زمانے اس نام کو لکھ چکے، اپنے اپنے ورقوں پر۔ اُردو ادب،پاکستانی ادب اور بیسویں صدی کا ادب جہاں دیکھو کئی بڑے ناموں کی سنگت میں ایک چمکیلا معتبر نام احمد ندیمؔ قاسمی! کتنا کچھ لکھا، کتنے برس لکھا اور کتنے لکھنے والے پیدا کئے۔ ان کی زندگی وقت کے کئی ادوار سے گزری بہت کچھ بنایا، اِک پورا جہان آباد کیا۔ اس جہان کی اپنی تہذیب تھی۔ اپنا قرینہ تھا، اپنی خوشبو تھی، اپنا رنگ وآہنگ‘‘
ندیمؔ صاحب کو ’’بابا‘‘ سب سے پہلے اُن کی نواسی نوشین نے 1976ء میں اور نواسے نیّر نے1978ء میں پکارنا شروع کیا۔ اِس کے بعد یہ نام عرفِ عام اختیار کر گیا۔
ندیمؔ پرورش
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یابندہء صحرائی یا مردِ کُہستانی
(اقبالؔ)
احمد ندیمؔ قاسمی لکھتے ہیں:
’’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لئے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی کے دُکھ پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چوُر ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا،اُنہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں گھرانے کی اس عزت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پوُنیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے ۔۔۔۔۔ وہ زیرِ لب کوئی آیت کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چھوُ‘‘ کرتیں اور یہ ’’ چھوُ‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘
’’عمر کے ابتدائی نو برس گاؤں میں گزارے۔ پانچواں سال گاؤں کی مسجد کا درس لیتے گزرا۔ 1923ء میں والد گرامی چل بسے۔ 1925ء میں ابتدائی چار جماعتیں پاس کر کے اپنے چچا جان خان بہادر پیر حیدر شاہ مرحوم کے ہمراہ کیمبل پور چلا گیا۔ وہ ان دنوں اٹک میں ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر تھے۔ وہاں ناز و نعم میں پلا اور آرام و آرائش سے زندگی بسر ہونے لگی۔ مگر اس نئے پلٹے نے میری ذہنی دنیا پر بجلی گرادی۔ دس مہینے نہایت ٹھاٹ سے گزار کر جب میں ہر سال گاؤں آتا تو اچانک جیسے سدریٰ کی بلندیوں سے تحت الثری میں پٹخ دیا جاتا۔ حالات کا تضاد شدید صورت اختیار کر چلا تھا اور جذبات اتنے گداز ہو گئے کہ معمولی سے معمولی واقعہ بھی ایک ابدی نقش چھوڑے بغیر نہ گزر سکا۔‘‘
ندیمؔ سراپا
پیرزادہ محمد بخش اپنے چھوٹے بھائی کے بچپن کا منظر اس طرح دکھاتے ہیں:
’’گھر کے صحن میں ایک گول مٹول، سرخ و سفید بچہ اُچھل کود میں مصروف ہے۔ بھرا بھرا جسم، گھنگریالے بال، موٹا مگر معصوم ناک نقشہ، کبھی اپنی بڑی بہن کو جا کر چھیڑتا ہے اور کبھی اپنے بڑے بھائی کو۔ کبھی امی کی گود میں دھم سے جا گرتا ہے اور کبھی آپا کی سہیلیوں کے چٹکیاں لے کر بھاگ جاتا ہے جب سب خفا ہونے لگتے ہیں تو دور ہٹ کر وہ کوئی ایسی چلبلی حرکت کرتا ہے کہ سب کھکھلا کر ہنسنے لگتے ہیں۔ امی اُس کی بلائیں لینے لگتی ہیں، آپا اس کا منہ چوم لیتی ہیں۔ بڑابھائی سینے سے لگا لیتا ہے یہ ہے ہمارا’’احمد شاہ‘‘ جو آج کل ’’حضرت احمد ندیمؔ قاسمی‘‘ کہلاتا ہے اور جسے ہم پیار سے ’’شاہ‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
ندیمؔ کے سکول کے ساتھی احمد شفیع بناتے ہیں:
’’اُس وقت کے ایک مختصر سے شہر (کیمل پور) میں ایک خاموش طبع، محنتی اور شریف الطبع بچہ جو بلوغت کے مدارج نہایت ہی دل پذیر اور شریفانہ انداز سے طے کر رہا تھا۔‘‘
اور نو عمر ندیمؔ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’احمد شاہ صفِ اوّل کے ڈیسک پر بیٹھتا تھا۔ وہ ایک ذہین اور محنتی طالبِ علم تھا، اس لئے وہ اساتذہ کے بالکل سامنے بیٹھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔ اسے صرف اپنے کام سے کام تھا۔ سر پر ترکی ٹوپی، شلوار قمیض اور چھوٹا کوٹ اس کا ملبوس تھا۔ سادہ زندگی، سادہ مزاج، سادہ کھانا، ایک سیدھا سادہ مسلمان، دوستوں کا دوست، دشمن کسی کا بھی نہیں ۔۔۔۔۔ اپنی کتابوں کے ساتھ احمد شاہ کی لگن اور کرید اُسے دوسرے طالب علموں سے ہمیشہ الگ رکھتی تھی اور اُس کی با وقار خاموشی میں مستقبل کا ایک جّری دانش ور پرورش پارہا تھا۔‘‘
نوجوان ندیمؔ سے پہلی ملاقات کا تاثر اُن کے دوست محمد خالد اختر اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’یہ گٹھے جثے کا، فراخ رو دیہاتی نوجوان ایک فطری شاعر تھا اوراس وقت بھی ہم اس سے مستقبل میں بڑی چیزوں کی توقع رکھتے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ وہ جلد ہی شعر و ادب کی دنیا میں اپنا مقام حاصل کر لے گا۔ وہ اپنے پروفیسر کا چہیتا طالب علم تھا اور فورتھ ایئر میں آکر سولجرز گروپ کا سیکرٹری بن گیا تھااور کالج میگزین ’’نخلستان‘‘ کے اُردو حصے کا ایڈیٹر بھی۔‘‘
’’اب میں سوچتا ہوں۔ کیا یہ وہی ندیم ہے جو پچیس تیس سال پہلے میری زندگی میں آیا تھا؟ وہ کڑیل، تازہ رو، جذباتی دہقانی لڑکا، جو اس وقت بھی اپنے گاؤں کی لہراتی پگڈنڈیوں اور ان پر چلتی ہوئی الہڑ صبوحیوں کے گیت لکھا کرتا تھا!!‘‘
اس کڑیل نوجوان کے بارے میں عبداللہ جاوید لکھتے ہیں:
’’پنجاب کے دیہاتوں میں پروان چڑھا ہوا جوان، سر سے پاؤں تک قبول صورت، لیکن گبرو نہیں۔ گبرو اتنے سنجیدہ نہیں ہوتے۔‘‘
ندیم صاحب کے صاحب زادے نعمان ندیم قاسمی کا کہنا ہے کہ :
’’اباّ جی بے حد حسین جسم کے مالک تھے۔ اُن کے اعضاء کا تناسب اور اپنے آپ پرکنٹرول بے مثال تھا، میں گواہ ہوں کہ اُن کا وجود کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے، لیٹے ہوئے، چلتے پھرتے ہوئے، ہنستے بولتے ہوئے، غرض ہر لمحہ پرکشش اور پر وقار مردانہ جسمانی وجاہت ظاہر کرتا اور اُن کے چہرے کی رنگت آخری لمحوں میں بھی، زندگی سے بھر پور سفیدی میں جاندار سُرخی لئے ہوئے تھی۔‘‘
مجتبیٰ حسین نے تحریر کیاہے کہ:
’’خندہ پیشانی کے ایک معنی تو لغت کے بے جان صفحات میں ہیں دوسرے معنی احمد ندیمؔ قاسمی کا چہرہ ہے۔ کبھی خاموش، کبھی بولتا ہوا مگر ہر صورت میں ’’خوش آمدید‘‘ کہتا ہوا۔ کتابی ایسا کہ ہر لفظ، ہر سطر پڑھ لیجیئے۔ کہیں گنجلک نہیں، کہیں تنقید نہیں۔ آنکھوں میں وہی روشنی جو پیشانی پر۔ لبوں پر افسانہ، غزل اور اس سوال کا تسکین آمیز جواب جو ابھی آپ کے دل میں ہے ندیمؔ سے مل کر پریشانی کم ہو جاتی ہے۔ بے گھری، درودیوار بنانے لگتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دھوپ ڈھل رہی ہے، درختوں کا سایہ بڑھ رہا ہے ۔‘‘
جبکہ محمد سعید شیخ کے مطابق آخری برسوں میں جب:
’’انہیں دیکھتا تو جسمانی کم زوری کے باوجود ان کے چہرے پر عجیب سی روشنی اور رونق دیکھنے کو ملتی ۔‘‘
’’ندیمؔ صاحب کی آنکھوں کے بیرونی گوشوں میں دو ننھے منے گول اُبھار سے موتی کی طرح جڑے نظر آتے۔ ان کے بارے میں استفسار پر وہ کہتے:’’دراصل یہ وہ آنسو ہیں جو بہہ نہیں سکے۔‘‘
صلاح الدین حیدر بتاتے ہیں کہ:
’’تمام تر مشکلات کے باوجود اُن کے چہرے پر ایک طمانیت کے ساتھ مسکراہٹ کھیلتی ہوئی ملتی تھی۔ آنکھوں میں زندگی سے لبریز شوخی اور اعتماد کی لہر نظر آتی، اُن کی ٹھوڑی کے پاس بائیں جانب ہونٹ کے نیچے لمبی لکیر کی شکل میں ایک زخم کا نشان تمتماتا ہوا نظر آتا تھا جس کے بارے میں استفسار کرنے پر معصومیت سے بتاتے کہ یہ زخم نادانستگی میں اتفاق سے اُن کے بھائی نے لگایا۔ شاید یہ مشکلات کے ساتھ حوصلہ مندی سے جینے کی ابتدائی تربیت کا اثر تھا کہ اکثر دانستگی سے زخم لگانے والے کو بھی بھائی سمجھ کر گلے لگا لیتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر مسرور احمد زئی لکھتے ہیں:
’’ندیمؔ صاحب سے مل کر اس بات پر ایمان لے آنے کو جی چاہتا تھا کہ ’’شاخِ ثمر بار خم رہتی ہے۔‘‘
اُجلی رنگت، دھیما لہجہ، مشفقانہ برتاؤ، خوش لباس وخوش گفتار، بات کاٹ کر بولنے میں احتیاط، اختلافی بات کاٹ دینے میں کمال!‘‘
ندیمؔ قبیلہ
اعوان
ندیمؔ عقیدہ
یہ درست ہے کہ کسی کے اپنے خالق سے ناتے کی نوعیت پر بحث مناسب نہیں اور ’’ایمانیات کے مسئلے کو خدا اور بندے کے درمیان ہی رہنے دیا جانا چاہیے۔‘‘ لیکن یہ تسلیم کر لینے میں کیا حرج ہے کہ کسی کا کوئی عقیدہ بھی ہے۔ دراصل کچھ ترقی پسند وں کو ندیمؔ کی مذہبیت کے بارے میں ذکر سُننا، پڑھنا پسند نہیں جبکہ کچھ افراد کو ندیمؔ کی ترقی پسندی کے ذکر سے پریشانی ہوتی ہے۔ حالانکہ ندیمؔ کے عقیدے اور اُن کے نظریئے میں ٹکراؤ نہیں تھا بلکہ ان دونوں نے مل کر ندیمؔ کی شخصیت کو پرکشش توازن دے دیا تھا۔ یوں وہ کسی بھی طرح کی انتہا پسندی سے محفوظ رہے اور اسی لئے اُنہوں نے شعر ہو یا افسانہ، کالم ہو یا مضمون، ان میں جو بھی بات کی، ہمیشہ بلا جھجک، بلا تردّد، بڑی جرأت اور نہایت ہی اعتماد سے کی۔ اس ذیلی عنوان کے تحت یہاں ندیمؔ کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں کچھ اقتباسات دیئے جارہے ہیں۔
امجد رؤف خان کو انٹرویودیتے ہوئے ندیمؔ نے کہا:
’’ الحمدللہ میں ایک مسلمان ہوں۔ میں نے پِیروں کے خاندان میں آنکھ کھولی۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں، ۔حضرت محمدؐ کو خاتم النبین مانتا ہوں، مذہب کو ایک قوت، محبت کی روشنی سمجھتا ہوں۔‘‘
ندیمؔ کے فلسفہء مذہب کی وضاحت میں محمد علی صدیقی لکھتے ہیں:
’’قاسمی کی ترقی پسندی دراصل اسلامی انسان دوستی کے جذبہ کا سیکولر رُخ ہے۔ وہ مذہب بے زاری اور الحاد سے کوسوں دور ہیں’’جلال وجمال‘‘کے دیباچے میں خود اُن کے الفاظ میں:
’’انقلابی شاعروں کی ایک خصوصیت آج تک میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اُنہیں خدا سے کیوں بیر ہے۔ اگر مذہب کی ابتدائی یعنی حقیقی ماہیت کو پرکھا جائے تو ایک ایسے کیمیائی عمل کی صورت اختیار کر لیتا ہے جو ہماری زندگی کو درندگی سے ہٹا کر انسانیت کا احترام اور اپنی ذات کی طہارت سکھاتا ہے مذہب ہمیں بد اخلاقی، ذہنی آوارگی اور انسانیت دشمنی کی یقینااجازت نہیں دیتا۔ مادے کی قوت مسلم، لیکن مادے کی تکوین و تعبیر کے پسِ پردہ جو ایک غیر محسوس حسن کارفرما ہے، اس سے ایک سچا شاعر قطعاً منکر نہیں ہو سکتا اور شاعری کا سب سے بڑا معجزہ عالم گیر حسن و خیر کا احساس ہے۔ جنس ہو یا انقلاب، مذہب ہو یا الحاد ہم ہر حالت میں اپنے دین کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔‘‘
عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں:
’’برمنگھم (وہاں کی سب سے بڑی جامع مسجد) میں ہم سب وضو کرتے ہیں اور میں ندیمؔ صاحب سے کہتا ہوں ’’آج ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے‘‘۔ ندیمؔ صاحب تیار ہو جاتے ہیں اور امام کے مصلے پرجا کھڑے ہوتے ہیں اور پھر اس روز ہم نے ندیمؔ صاحب کی امامت میں نماز عصر ادا کی!‘‘
جبکہ گلزار جاوید کو انٹر ویو دیتے ہوئے ندیمؔ صاحب کہتے ہیں:
’’میں کٹرمذہبی تو کسی صورت نہیں ہوں۔ میں تو بڑا فراخ دل مسلمان ہوں اور ہر اس نیک آدمی کو سینے سے لگانے کو تیار ہوں جو چاہے کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہو مگر عملاً نیک ہو۔ پکا ’’ترقی پسند‘‘ یقیناً ہوں۔ میرا مذہب میری ترقی پسندی سے کسی طرح بھی مزاحم نہیں ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ خود اسلام بے حد ترقی پسند مذہب ہے۔‘‘
ندیمؔ خاندان
بقول ندیمؔ :
’’میرا خاندان علاقہ سون سکیسر کے معزز ترین گھرانوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ احترام دنیوی دولت سے زیادہ مذہبی بزرگی کا مرہونِ منت ہے۔‘‘
احمد غزالی اپنی کتاب’’وادیء سون سکیسر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ان کا خاندان علمی فضیلت اور تقویٰ کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ حضرت چَن پیرؒ (والدِ ندیمؔ ) نے اس خاندانی روایت کو زندہ رکھا۔ 1924ء میں جب حضرت چَن پیرؒ نے رحلت فرمائی تو علم دوستی اور پرہیز گاری کا یہی ترکہ اپنے پسماندگان کو دے گئے۔‘‘
عبدالقادر حسن کا کہنا ہے:
’’قاسمی صاحب کے اپنے آباؤاجداد رہنے والے تو وادیء سُون کے تھے اور ان کا گاؤں ’’انگہ‘‘ حضرت سلطان باہو کا گاؤں بھی تھا۔ لیکن ان کی عادات و اوصاف، گفتگو اور رہن سہن میں مجھے وادی سون کا ان پڑھ اور کرخت کلچر کبھی دکھائی نہیں دیا۔ قاسمی صاحب ایک تعلیم یافتہ اور وادیء سون سکسیر کے معیار سے ایک خوش حال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ پوری وادی میں ان کے خاندان کا احترام تھا۔ یہ پیروں کی اولاد تھے اور ایک پیر زادہ کہلاتے تھے۔ قاسمی صاحب کا خاندان ایک نفیس خاندان ہے۔ یہ چائے میں شہد ملاتے تھے، ان لوگوں کا لباس صاف سھترا اور قیمتی ہوا کرتا تھا۔ قاسمی صاحب میں اس خاندان کی ثقافت بھر پور انداز میں دکھائی دیتی تھی۔‘‘
ہارون رشید لکھتے ہیں:
’’بابا جیسے نفیس اور بے نظیر لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں وہ بڑے دین دار خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ مذہب سے ان کی کمٹمنٹ ان کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں بدرجہء اتم نظر آتی ہے۔ وہ خود ایک تہذیب تھے، جو اب قریب قریب معدوم ہو چکی ہے۔ وہ بہت محنت کرتے تھے، سیلف میڈ انسان تھے، ساری انسانیت کے لئے بلا مذہب و قوم درد رکھتے تھے ۔‘‘
ندیمؔ رشتے
ندیم آٹھ برس کے تھے جب اُن کے والد کا انتقال ہو گیا (1924ء میں)۔ جبکہ اپنی والدہ کے بارے میں ندیمؔ کا کہنا ہے کہ:
’’میری زندگی پر سب سے عظیم اثر میری ماں کا ہے۔‘‘
یہ وہی عظیم ماں ہیں کہ جب 1958ء میں ندیمؔ سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل گئے تو چند قریبی عزیزوں نے اُن کی والدہ صاحبہ کی طرف سے معافی نامہ لکھ کر انہیں جیل سے رہائی دلوانا چاہی۔ ایک بزرگ درخواست لکھ کر’’انگہ‘‘ میں اُن کی والدہ صاحبہ کے پاس گئے۔ والد ہ پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ کاغذ چھو کر پوچھا:’’کیا لکھا ہے اس میں؟‘‘۔ انہیں معافی نامہ کی تجویز بتائی گئی تو اُنہوں نے یہ کہہ کر انگوٹھا لگانے سے انکار کر دیا کہ:
’’میرے بیٹے نے کبھی کوئی ایسا غلط کام نہیں کیا جس پر اسے مجھ سے معافی مانگنی پڑے۔‘‘
ندیمؔ کے دوست خالد اختر اپنے نو عمر دوست کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کہ:
’’باہر کی دنیا کی نا مہربانی اور بے دردی نے اس خام دہقانی نوجوان کے حساس دِل کو بری طرح مجروح کیا اپنی بوڑھی ماں کی محبت اور اپنے ستارے میں ایمان نے اسے انتہائی قدم اٹھانے سے روکا۔ ہر خط میں وہ اپنی بوڑھی ماں کا ذکر ضرور کرتا جو اُس کے نزدیک ساری دنیا کی عظیم ترین عورت تھی۔ ندیمؔ اپنی ماں کو حقیقتاً پوجتا تھا۔‘‘
ندیمؔ کی منہ بولی بہن خدیجہ مستور لکھتی ہیں:
’’ندیمؔ کبھی یہ نہیں بھولتے کہ ان کی زندگی میں جو سب سے پہلی عورت آئی وہ ان کی ماں تھی اور ماں کے وجود سے انہیں عورت کی عظمت اور تقدس کے احساس کا سبق ملا۔‘‘
ندیمؔ کی ایک اور منہ بولی بہن ہاجرہ مسرور کا کہنا ہے:
’’احمد شاہ بے حد خوش نصیب تھے جو اس گھر میں پیدا ہوئے، کیونکہ اس گھر میں ایک بڑی بہادر اور محترم ماں رہتیں تھیں۔ یہ ماں زندگی کی مسدود راہوں کو دیکھ کر ہمت نہ ہارتیں اور وہ پگڈنڈیاں تلاش کر لیتیں جن پر چل کر اپنے بچوں کی خوشیوں کے پھول چُن لاتیں۔ کیا ہوا جو وہ اپنے بچوں کے لئے ولایتی کھلونے خریدنے کی سکت نہ رکھتی تھیں مگر وہ ان کے کھیلنے کے لئے روئی اور چھینٹ کے کپڑوں سے خوب صورت گیند تو بنا سکتیں تھیں۔‘‘
ندیم کی اکلوتی بہن سعیدہ بانو کا ذکر پیرزادہ محمد بخش اس طرح کرتے ہیں:
’’آپا نے تو شاہ (ندیمؔ) کو باقاعدہ اپنی چھوٹی بہن بنا رکھا تھا۔ دونوں بیٹھے دیر دیر تک گڑیاں کھیلتے رہتے تھے۔ ویسے شاہ محلے بھر کے لئے ایک تحفہ تھا جس کے بغیر نہ لڑکوں کو آرام آتا نہ لڑکیوں کو چین۔ کبھی لڑکوں میں راجہ بنا بیٹھا ہے اور کبھی لڑکیوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ان کے ساتھ اپنے گڈوں کے بیاہ رچا رہا ہے۔ شاید اسی لئے اس نے شاہ سے ندیمؔ بن جانے کے بعد کہا تھا:
رچی ہوئی ہے رفاقت مرے رگ وپے میں
کچھ اس طرح کہ اکیلا چلوں تو گھبراؤں‘‘
ہاجرہ مسرور بیان کرتی ہیں:
’’گھر میں ننھے احمد شاہ سے آٹھ سال بڑی ایک بہن بھی تھیں جن کا دامن پکڑ کر اُنہوں نے چلنا سیکھا اور یہ تھیں سعیدہ آپا۔ بہنیں تقریباً ہر گھر میں ہوتی ہیں مگر ننھے احمد شاہ کی بہن ایک ایسی غیر معمولی شخصیت کی مالک تھیں جن کے وجود نے ننھے احمد شاہ کے دل میں بہن کے رشتے سے والہانہ محبت اور احترام کا بیج کچھ اس طرح بویا کہ وہ بڑھ کر چھتنار درخت بن گیا۔ ایک ایسا چھتنار درخت جس کی چھاؤں میں بیٹھی میری جیسی کئی بہنیں فخر کرتی ہیں۔‘‘
(اُنہوں نے تسنیم چھتاری، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور ان کی بہنوں کو اور ادا جعفری اور دیگرکو منہ بولی بہنیں کہا اور بھائی کی شفقت دی) ندیم صاحب اپنے بڑے بھائی کے نام ایک کتاب کے انتساب (افسانوی مجموعہ ’’بگولے‘‘1941ء) میں لکھتے ہیں کہ:
’’برادر بزرگ پیرزادہ محمد بخش صاحب کے نام، جنہوں نے میرے بچپن کی نیم شگفتہ، نیم پژمردہ گھڑیوں، سنِ بلوغ کے احساس کی آنچ سے تپتے لمحوں اور شباب کی دھڑکتی اور بھڑکتی ساعتوں میں متبسّم چہرے اور پُر خلوص ولولے سے میرا ساتھ دیا اور بارہا مجھے نا اُمیدی اور تدبذب کے غاروں میں گرنے سے بچایا۔‘‘
اور بڑے بھائی بہت پیار سے اپنے چھوٹے بھائی کا ذکر یوں کرتے ہیں:
’’1925ء میں پرائمری کا امتحان پاس کر کے شاہ، کیمبل پور میں مجھ سے آ ملا۔ یہاں آکر بھی اس کی شوخیوں اور شرارتوں میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ حد یہ کہ چچا کے سے سنجیدہ بزرگ اور چچی جان کی سی باوقار خاتون بھی شاہ کی معصوم شرارتوں میں دلچسپی لینے لگے۔‘‘
ہاجرہ مسرور لکھتی ہیں:
’’یہ چچا اور چچی نیکی کی ایک مثال تھے۔ اُنہوں نے محسن کی طرح نہیں، ماں باپ بن کر ان بچوں کو اپنے زیرِ سایہ رکھا۔ یہاں یہ بچے ٹھاٹ سے بنگلے میں رہتے اور موٹرمیں گھومتے۔‘‘
ندیمؔ اپنی والدہ، بڑی بہن اور بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے۔ ان کا کہا کسی صورت میں نہ ٹالتے۔ وہ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کا بھی بے حد خیال رکھتے۔ انہیں اپنے اکلوتے بھانجے ظہیر بابر سے بے حد محبت تھی۔ اُنہوں نے منہ بولے رشتوں کو بھی بہت خلوص اور نیک نیتی سے نبھایا۔ بہنیں بھائی، بیٹیاں اور بیٹے کہہ کر مکمل باپتا اور رہنمائی دی۔ ندیمؔ کے مجموعہ کلام ’’دوام‘‘ کے انتساب میں سے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیئے:
اپنے اُن اہلِ خاندان کے نام
جن سے میری حیاتِ فن کو دوام
رابعہ ۔۔ وہ میری شریکِ حیات
میرے دُکھ سُکھ میں میرے ساتھ رہی
میرا نعمان ۔۔ میرا نورِ نظر
روح کا چین، آنکھ کا تارا
فن انہی سے ہے معتبر میرا
جن سے جنت بنا ہے گھر میرا
میری ناہید اور میری نشاط
مجھ کو یہ بیٹیاں خدا نے دیں
خیر کی مشعلیں بلند کئے
وہ میرے ساتھ ساتھ چلتی رہیں
میری دو اور بیٹیاں ہیں جنہیں
منتخب میرے قلب و جاں نے کیا
میری اولاد کی طرح میری
ایک پروین، ایک منصورہ
اب ندیمؔ کی نظم ’’آخری فیصلہ‘‘ کا ایک حصہ جس میں اُنہوں نے اپنے افرادِ خاندان کا اپنے قریبی رشتے داروں کا ذکر یوں کیا ہے کہ:
مِری معصوم بیٹی کا اُجلا تبسّم
جیسے شبنم کے قطرے میں خورشید کا اولیں لمس گُھل جائے!
میری بہنوں کی آنکھوں میں پاکیزگی کی چمک
جیسے برفوں سے آراستہ پربتوں میں ستارے اُتر آئیں!
میری بیوی کے چہرے پہ تخلیق کے ولولے، پرورش کے عزائم
جیسے دھرتی کے شاداب سینے پہ گندم کے اکھوے
میرے بھائی کے ہاتھوں کی مانوس گرمی
جیسے سرما کی بھیگی ہوئی صبح میں دھوپ مِل جائے
میری ماں کا بڑھاپا، خلوص اور محبت کا بارِ امانت اُٹھائے ہوئے
ڈوبتے چاند کی چاندنی، سوکھتے گلشنوں کا تعطر!
میرے ابّا کی تربت پتاور میں ڈوبی ہوئی
جیسے اُمڈے ہوئے بادلوں میں نہاں مہرِ تاباں!
میرے احباب کی دندناتی ہوئی محفلیں
جیسے دریا چٹانوں سے ٹکرا کے ہٹتے ہوئے، گھوم جاتے ہوئے، گنگناتے ہوئے
آج دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں، ایک انسان ہیں
اور آدمیت کا یہ آخری فیصلہ ہے
کہ ہم اپنی دنیا کو ویران ہونے نہ دیں گے
ہم نئی جنگِ عالم کا اعلان ہونے نہ دیں گے
(’’آخری فیصلہ‘‘ 1950ء)
ندیمؔ صاحب کے منہ بولے رشتوں کے ساتھ نباہ کرنے کے سلسلے میں فریدہ حفیظ بتاتی ہیں کہ:
’’نسبت روڈ پر جس گھر میں قاسمی صاحب مدتوں رہے اس کے پڑوس میں مَیں بھی رہتی تھی۔ ہاجرہ آپا اور خدیجہ آپا کو بہنیں کہا تو خود اُن کا اور اُن کے سارے خاندان والدہ ،بہنیں اور بھائیوں کا خیال رکھ کربھائی ہونے کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ میں نے وہ کمرہ اور صحن بھی دیکھا جہاں قاسمی صاحب اور اُن کے بیوی بچوں نے زندگی کے کئی سال گزارے۔ یہ کمرہ دیکھ کر ہی قاسمی صاحب کے صبرو استقلال، ہمت اور درویشانہ طبیعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذرا سوچیئے لاہور کی گرمی میں مئی جون کا تپتا مہینہ اور چار منزلہ گھر کی سب سے اوپر والی منزل جہاں پانی تک نہیں چڑھتا۔ میں تو قاسمی صاحب کے ساتھ ان کی بیگم کی ہمت کی بھی داد دیتی ہوں جنہوں نے اپنے شوہر کے منہ بولے رشتوں کو بھی اپنوں کی طرح نبھایا۔ جبکہ ندیمؔ لالہ کے عہدِ وفا نے تو کبھی تھک کر ہانپنا قبول نہیں کیا۔‘‘
دراصل ندیمؔ سب انسانوں کو اپنے ہی خاندان کے افراد کی طرح عزیز رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو پوری انسانی برادری میں شامل ایک فرد سمجھتے ہیں۔اسی لئے تو اُن کا ایمان ہے کہ:
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں،غریبِ شہر نہیں
’’ندیمؔ ‘‘
ندیمؔ تعلیم
حصولِ تعلیم کے لئے ندیمؔ صاحب کو قربانیاں بھی دینا پڑیں اور مختلف آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا:
’’نو برس کی عمر میں مجھے اماں سے الگ ہو کر تعلیم کے سلسلے میں کیمبل پور جانا پڑا‘‘
اپنے مجموعہ کلام ’’جلال و جمال‘‘ کے دیباچے میں احمد ندیمؔ قاسمی تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’عمر کے ابتدائی نو برس گاؤں میں گزارے، پانچواں سال گاؤں کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیتے گزرا۔ 1923ء میں والد گرامی چل بسے۔ 1925ء میں ابتدائی چار جماعتیں پاس کر کے اپنے چچا جان، خان بہادر پیر حیدرشاہ کے ہمراہ کیمبل پور چلا گیا۔‘‘
’’۔۔۔۔۔ چچا جان عربی فارسی دونوں کے عالم تھے لیکن ان کی طبیعت کا رجحان زیادہ تر عربی کی طرف تھا۔ عربی اور فارسی کے علاوہ اُردو میں بھی خاصے رواں شعر کہہ لیتے تھے۔ قیمتی کتابوں سے ٹھُنسی ہوئی الماریاں ان کے کمرے کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ میں پانچویں میں تھا کہ اُنہوں نے ہم سب بھائیوں کو ’’تفسیر حقانی‘‘ کا درس دینا شروع کیا۔ درس کے دوران میں جگہ جگہ حساؔن بن ثابت، سعدیؔ، حافظؔ، غالبؔ، حالیؔ، اقبالؔ کے اشعار سے مطلب واضح فرماتے، تلفظ درست کرتے، اشعار سے صحیح طور پر محظوظ ہونے کے طریقے بتاتے، امیرؔ، داغؔ کی شاعری سے بے زارتھے۔ کتب خانہ کا ایک حصہ مرحوم و مغفور نے ہمارے لئے وقف کر رکھا تھا۔ اس حصہ میں قرآن مجید کی تفاسیر کے علاوہ مسلمان فلسفیوں کی کتابیں تھیں، اصفیائے کرام کے ملفوطات تھے، ساتھ ہی اقبالؔ کی اُردو فارسی تصانیف اور ’’ہمایوں‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کی فائلیں تھیں۔ اس علمی اور ادبی ماحول کا میری طبیعت پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ چھٹی جماعت ہی سے میں نے ایک بیاض میں اُردو کے پاکیزہ اشعار لکھنے شروع کر دیئے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ان دنوں بھی مجھے غالب کا یہ شعر آج ہی کی طرح پسند تھا:
سراپاینِ عشق و ناگزیرِ اُلفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
’’دس گیارہ برس کی عمر میں اس بے پناہ شعر کے معانی کا شعور چچا جان کی ہمہ گیر اور ہمہ صفت شخصیت کا معجزہ ہے۔ سیالکوٹ میں چچا جان شمس العلماء میر حسن مرحوم کے شاگرد رہ چکے تھے اور ڈاکٹر اقبالؒ کے ہم سبق تھے۔ شاید اسی لئے بچپن سے اقبالؔ کی شاعری سے اُنس پیدا ہوا جو اب تک اسی شدت سے قائم ہے۔‘‘
’’بارہ برس کی عمر میں مَیں نے 80 صفحات کا ایک ناولٹ لکھا جو میرے ہم جماعتوں میں بہت پسند کیا گیا۔ اس عمر میں مجھے چند اشعار موزوں کرنا بھی یاد ہے۔ 1930ء کے اواخر میں چچا جان کے ہمراہ شیخوپورہ آنا پڑا۔ لاہور قریب ہی تھا۔ یہاں کے لڑکے کیمبل پور کے لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ شوخ اور معلومات کے معاملے میں تیز تھے۔‘‘
’’چچا جان کا ارادہ تھا کہ حکومتِ پنجاب کی ملازمت سے فارغ ہو کر ریاست بہاول پور میں مشیرِ مال کا عہدہ سنبھال لیں گے۔ اسی خیال کے تحت اُنہوں مجھے بہاول پور کالج بھیج دیا۔ مگر اس کالج میں ’’کالجیت‘‘ کم تھی اور ’’مکتبیت‘‘ زیادہ تھی ۔۔۔۔۔ اسی لئے مزاج میں جو تڑپ تھی، وہ ماحول کے جمود میں دبی پڑی رہی اور اگر اُبھری تو سلجھ نہ سکی کہ اچانک علی گڑھ یونیورسٹی سے ایک خوش اخلاق اور وسیع المطالعہ پروفیسر پیرزادہ عبدالرشید صاحب جو ان دنوں کالج کے پرنسپل ہیں، اس کالج سے منسلک ہو گئے۔ اتفاق سے میرا نام انہی کے گروپ میں آگیا اور سپاہیوں (سولجرز) کا یہ گروپ ان کی زیرِ نگرانی چند ہی مہینوں میں کالج کی زندگی میں نت نئی تحریکوں کا منبع بن گیا۔ ڈرامے، مباحثے، مشاعرے اور ادبی جلسے غرض کالج میں زندگی اور حرکت کی لہروں پر لہریں دوڑنے لگیں اور میری شاعری نے انہی دنوں پر پُرزے نکالنے شروع کئے۔‘‘
’’انہی ایام میں میرے ایک نہایت عزیز دوست محمد خالد (جنہیں ادیب بننا چاہیئے تھا لیکن جو آج کل انجیئنرنگ کی اعلی تعلیم کے لئے انگلستان میں مقیم ہیں) نے مجھے آر ایل اسٹیوونسن اور رائڈر ہیگرڈ کے ناولوں کی روشنی میں مہماتی کہانیاں لکھنے کی ترغیب دی۔ ان کے پاس انگریزی کتابوں کا ایک ذخیرہ تھا جو میرے مطالعے کے لئے وقف کر دیا گیا اور میں نے شاعری کے علاوہ افسانہ کی طرف بھی توجہ دینی شروع کی۔‘‘
’’1934ء میں چچا جان مرحوم مشیرِ مال مقرر ہو کر بہاول پور تشریف لائے۔ تقرر کے فوراً بعد رُخصت پر گاؤں چلے گئے اور وہیں حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے وفات پائی۔ زندگی کے بحرِ ذخار میں یہ تنہا منارہء نور بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ مخدومی پیر زادہ عبدالرشید صاحب کی دستگیری اور کچھ اپنی ہمت سے مرمٹ کر 1935ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔‘‘
ندیمؔ کے سکول فیلو احمد شفیع کا بیان ہے:
’’احمد شاہ صفِ اول کے ڈیسک پر بیٹھتا تھا وہ ایک ذہین اور محنتی طالب علم تھا۔ اس لئے وہ اساتذہ کے بالکل سامنے بیٹھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہ کالج کا طالب علم ہوا تو جب بھی پروفیسروں کے سامنے ڈٹ کر بیٹھتا رہا۔‘‘
جبکہ ندیمؔ کے کالج فیلو محمد خالد اختر لکھتے ہیں:
’’میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، وہ تھرڈ ایئر کا۔ مگر خوش قسمتی سے ہم ایک ہی پروفیسر کے گروپ موسوم بہ ’’سولجرز‘‘ میں شامل تھے۔ سولجرز کے اجلاس ہر ہفتے ہمارے پروفیسر (عبدالرشید صاحب) کی صدارت میں ہوتے تھے۔ ندیمؔ جو اس وقت ’’احمد شاہ ندیمؔ ‘‘ تھا، سولجرز کے اجلاسوں میں اپنی نئی نئی نظمیں سُنایا کرتا تھا۔ ان نظموں میں ایک نئی نغمگی، تازگی اور اُجلا پن ہوتا تھا اور ہم ان کے جادو تلے آگئے تھے۔ وہ اپنے پروفیسر کا چہیتا طالبِ علم تھا اور فورتھ ایئر میں آ کر سولجرز گروپ کا سیکرٹری بن گیا تھا۔ ادب سے ہمارا سانجھا شغف رفتہ رفتہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا۔‘‘
ندیم شادی
ندیمؔ کے دوست محمد خالد اختر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’جولائی 1948ء میں ندیمؔ کی شادی گاؤں میں اپنے عزیزوں کے ہاں ہو گئی اور اب ندیمؔ تین خوب صورت بچوں کا باپ ہے۔ اب ندیمؔ کی زندگی ذہنی طور پر زیادہ اطمینان بخش اور بار آور ہوگئی ہے۔ گو اس کے مالی تفکرات میں کوئی کمی نہ آئی۔ وجہ یہ تھی کہ ندیمؔ کتابیں لکھ کر اپنی روٹی کمانا چاہتا تھا اور اس ملک میں یہ ممکن نہیں۔‘‘
پروفیسر احتشام حُسین نے لکھا کہ:
’’قاسمی نے اپنی شادی کے سلسلے میں میری مبارک باد کے جواب میں ایک طویل اور دلچسپ خط لکھا اور اپنی زندگی کے ایک نئے اور خوش گوار سفر کا ذکر کیا۔‘‘
جبکہ شریف کنجاہی رقم طراز ہیں:
’’ندیمؔ صاحب کی زندگی کے ایک اور رُخ کی طرف آنا چاہتا ہوں جو ان کی ندیمیت کا ایک اور کامیاب روپ ہے اُن کی بیگم اُن کے قبیلے ہی سے ہیں اور اُس دور کے عام مزاج کے مطابق جب اُن کی شادی ہوئی تھی،علوم جدیدہ سے معروف معنوں میں ناآشنا۔ ان حالات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اہلِ قلم کا ذوقِ جمال وظیفہ عیال پر غالب آجاتا ہے اور یوں ربطِ باہم کی دیوار خم دار اُٹھنے لگتی ہے۔ یہ خم دار دیوار گر پڑنے کے مستقل خطرے کا اعلان بنی، کبھی بھی اہلِ خانہ کو اس سکون سے نہیں بیٹھنے دیتی جو ندیمؔ صاحب کے افراد خانہ کی متاع گراں ہے اور اس لحاظ سے بھی ندیمؔ صاحب ہم عصر ارباب قلم کے ان محدود سے خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جن کی عائلی زندگی گرداب آشنا نہیں ہے۔ کافی حد تک اس کا سہرا بھی ندیمؔ کی اس طبیعت کے سر ہے جس کی جڑیں دوسروں کو اپنانے اور ان کے جوہر کی قدر کرنے کی داخلی تحریک میں سے اخذِ غذا کرتی ہیں جس کا خارجی روپ ندیمؔ کے ایک محبت کرنے والے خاوند کے روپ میں اُبھرتا ہے تو کسی عورت کے دخل در معقولات ہونے کے خدشات کو جلو میں لینے نہیں آتا اور جب ایک شفیق باپ کے پیکر میں نمودار ہوتا ہے تو ناہید بیٹی بے اختیار پکار اُٹھتی ہے کہ’’میرے لئے یہی بات عمر بھر فخر کرنے کے لئے بہت ہے کہ میں ندیمؔ کی بیٹی ہوں۔‘‘
مجتبیٰ حسین اپنے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ:
’’ایک نظم ’انتساب‘ جو اس شعر سے شروع ہوتی ہے۔
اپنے ان اہلِ خاندان کے نام
جن سے میری حیاتِ فن کو دوام
اس کا ایک شعر ہے:
فن انہیں سے ہے معتبر میرا
جن سے جنت بنا ہے گھر میرا
یہ اشعار اعلان نہیں ہیں ،ندیمؔ اور ندیمؔ کی شاعری کی پہچان ہیں۔ ان میں وہ مہک ہے جو ہمارے گھر کے آنگنوں سے اُڑتی جارہی ہے۔‘‘
ندیم ادارتیں
احمد ندیمؔ قاسمی ’’جلال وجمال‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ:
’’3 جولائی 1939ء کو میں نے ملتان کے دفتر آب کاری میں کام کرنا شروع کیا 20 ستمبر 1942ء کو یہ اکبوس میرے سینے سے اُترا۔ 25 ستمبر 1942ء کو میں نے دارالاشاعت پنجاب (لاہور) میں بحیثیت ایڈیٹر’’تہذیبِ نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کام کرنا شروع کیا۔ 1943ء میں مشہور ترقی پسند رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ (لاہور) کی ادارت سنبھالی۔ 1944ء میں سالنامہ’’ ادب لطیف ‘‘کے ایک مضمون سے خفا ہو کر حکومتِ پنجاب نے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت گرفتار کر لیا۔ یہ مقدمہ ایک برس چلتا رہا۔‘‘
’’پھر جب میری منہ بولی بہنیں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور ترکِ وطن کر کے لکھنؤ سے لاہور آگئیں تو میں اُن کی سر پرستی کی خاطر پشاور (ریڈیو) سے مستعفیٰ ہو کر لاہور آگیا۔ یہاں ہاجرہ بہن نے اور میں نے محمد طفیل صاحب کے تعاون سے رسالہ ’’نقوش‘‘ کا اجراء کیا۔ 1949ء کے آخر تک یہ سلسلہ چلا۔ ہماری ترقی پسندانہ انتہا پسندی سے گھبرا کر ہمارے دوست محمد طفیل نے ہمارے ساتھ چلنے سے معذرت کر لی۔ ظاہر ہے ہم تو خالی ہاتھ تھے۔ اُن کے بغیر رسالہ چلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے ’’نقوش‘‘ اُن کے سپرد کردیا اور خود بے روزگاری کے صحرا میں داخل ہو گئے۔‘‘
ہاجرہ مسرور لکھتی ہیں:
’’1952ء کے آخر میں ندیمؔ بھیّا ’’امروز‘‘ کے فکاہیہ کالم نویس کی حیثیت سے سامنے آئے اور مارچ 1953ء میں اسی روزنامے کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ (1958ء میں) مارشل لاء کے آغاز میں ایک بار پھر سیفٹی ایکٹ کے گونگے بہرے بھوت نے ندیمؔ بھیّا کو دبوچ لیا اور ایک بار پھر ندیمؔ بحیثیت ایڈیٹر ’’امروز‘‘ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے لاہور جیل، راولپنڈی جیل اور وہاں سے شاہی قلعے لاہور کے چکر لگاتے رہے اور اس طرح اُنہوں نے اپنی قید کے سو (100) دن پورے کئے۔‘‘
اس کے متعلق احمد ندیمؔ قاسمی بتاتے ہیں کہ:
’’اس دوران مجھے محکمہ اطلاعات کی جانب سے ایک مضمون ملا۔ اس کا عنوان تھا: ’’کیا یہ مارشل لاء ہے؟‘‘ مطلب یہ تھا کہ یہ نعمتِ خداوندی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں یہ مضمون نہیں چھاپ سکتا۔ اس پر مجھے اوپر سے پیغام ملا۔ ’’ہم اپنے آدمی بھیج دیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’جناب بھیج دیجئے۔‘‘ چنانچہ ادھر ایک آدمی مضمون واپس لے کر گیا اور اُدھر دوسرا آدمی میرے وارنٹ گرفتاری لے آیا اور مجھے پکڑ کر اندر کر دیا گیا‘‘
’’رہائی کے کچھ روز بعد میں نے دوبارہ ’’امروز‘‘ کی ادارت سنبھال لی۔ یہ مارچ 1959ء کی بات ہے جب صبح کو مجھے گھر پر ٹیلی فون ملا کہ پولیس اور فوج نے پروگریسو پیپر لمیٹڈ پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں دفتر میں گیا تو وہاں پولیس اور فوج کا پہرہ تھا۔ میرے دفتر کے اندر بھی پولیس والے بیٹھے تھے میں نے وہاں کے ایڈ منسٹریٹر سے کہہ دیا کہ ’’میں یہاں پر کام نہیں کروں گا۔‘‘ اُنہوں نے کہا:’’اس صورت میں آپ کو پکڑ لیا جائے گا۔‘‘ میں نے کہا:’’جناب یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میں جو آزادی سے اخبار کے اداریئے لکھتا رہا ہوں اب پولیس والے آکر مجھے ڈکٹیشن دیں گے کہ یہ لکھو وہ نہ لکھو۔ یہ تو مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔‘‘ اس پر ایڈ منسٹریٹر صاحب نے قدرت اللہ شہاب کو ٹیلی فون کیا جو اس زمانے میں انفارمیشن سیکرٹری تھے میں نے بحث کی اور وہ قائل ہو گئے کہا:’’ٹھیک ہے ہم آپ کا استعفیٰ منظور کر لیتے ہیں ۔‘‘ میں نے کہا:’’آپ کا یہ مجھ پر بہت بڑا کرم ہو گا‘‘۔ اس کے بعد میں بے کار ہو کر ایک بار پھر سڑک پر آگیا کچھ عرصہ بعد (1963ء میں) میں مَیں نے اپنا رسالہ ’’فنون‘‘ جاری کیا جو اب تک جاری ہے۔‘‘
احمد ندیم قاسمی کی مدیرانہ صلاحیتوں کے بارے انتظار حسین لکھتے ہیں :
’’ادیب ہونے کے علاوہ قاسمی ایک ادبی شخصیت بھی رکھتے تھے۔ ہر ادیب ادبی شخصیت بن جانے کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ ان میں عام طور پر یہ کمی ہوتی ہے کہ اُن میں اَناء بہت ہوتی ہے۔ قاسمی صاحب دوسروں کے لئے بہت گنجائش رکھتے تھے۔ وہ اپنے خردوں سے مہربانی کے ساتھ پیش آتے اور جن میں ادبی صلاحیت نظر آتی، ہمیشہ اُنکی سر پرستی کرتے ’’فنون‘‘ کو ایک طرح سے ان کی شخصیت کی توسیع سمجھا جا سکتا ہے۔ اس جریدے کے ذریعے انہوں نے نووارد اور نو آموز لوگوں کی تربیت کی اور اُن کو ادب کی دنیا میں متعارف کرایا ۔۔۔۔۔ اُن کا رسالہ ایک طرح سے ایک ادارہ بن گیا تھا۔‘‘
ندیمؔ قید وبند
حمید اختر نے لکھا ہے کہ:
’’(1948ء) لاہور میں ہم نے مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کو متحرک کیا۔ قاسمی صا حب انجمن کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ہم لاہور برانچ کے سیکرٹری تھے۔ اُس زمانے میں خفیہ پولیس والے ہم لوگوں کے پیچھے پڑے رہتے تھے۔ انجمن کے ہفتہ وار جلوس میں سرکاری ادارے، خفیہ ایجنسیاں برابر رخنہ اندازی کرتی رہیں۔ اُس پُر آشوب دور میں ہم نے قاسمی صاحب کے کندھے سے کندھا ملا کر ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حتی کے مئی 1951ء میں گرفتار بھی ایک ساتھ ہی ہوئے۔ لاہور سینٹرل جیل میں ( گریجویٹ ہونے کے باوجود) سی کلاس میں اُن کے ساتھ جو وقت گزارا اس نے دوستی اور رفاقت کے رشتوں کو اور مضبوط کر دیا وہاں جو قیدی تھے، قاسمی صاحب کے علاوہ وہ سب سیاسی کارکن یا رہنما تھے۔ قاسمی صاحب ترقی پسند ادیب تو تھے مگر اُن کا سیاست سے اُس وقت تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہم سب لوگ پریشان تھے کہ اُن کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے۔ وہ یہ سختیاں کیسے برداشت کریں گے مگر انہوں نے بڑے حوصلے اورعزم کے ساتھ یہ وقت گزارا بلکہ اُن کی حسِ مزاح کچھ اور تیز ہو گئی۔ جن لوگوں نے اُس زمانے میں لکھی گئی ہماری کتاب ’’کال کوٹھڑی‘‘ پڑھ رکھی ہے اُنہیں اس میں قاسمی صاحب کی بھرپُور شخصیت کا اندازہ ضرور ہو گا۔ ‘‘
محمد علی صدیقی کی رائے میں:
’’ترقی پسند تحریک سے اُن کی باقاعدہ اور عملی وابستگی ’’ادبِ لطیف ‘‘ کے دور سے شروع ہوئی اور ادبِ لطیف میں ایک ’’قابلِ اعتراض ‘‘ مضمون لکھنے کی پاداش میں اُن کی گرفتاری عمل میں آئی اور اس طرح وہ گنتی کے چند ادیبوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے ادب میں ترقی پسندانہ فکریت کی سُرخ روئی کے الزام میں قید وبند کی صعوبتیں اُٹھائیں۔‘‘
ندیمؔ اُستاد و رہنما
کسی بھی نمایاں شخصیت کی پشت پر اُستاد اور رہنما کی تھپکی بہت اہم ہوتی ہے۔ ندیمؔ نے جس سے بھی کچھ اچھا سیکھا اورراہنمائی حاصل کی، اُس کی ہمیشہ قدر کی اور برملا اعتراف بھی کیا۔ ماں کی گود اور چچا کی تربیت اُن کی پہلی درس گاہیں تھیں۔ یہ احمد ندیمؔ قاسمی کی خوش بختی رہی کہ اُنہیں اچھے اُستاد اور رہنما ملے۔ اس کے بارے میں کچھ مضامین اور انٹر ویو ز کے علاوہ سوانحی اور شخصی خاکوں پر مشتمل ندیمؔ کی دو کتابوں ’’میرے ہم سفر‘‘ اور ’’میرے ہمقدم‘‘ میں بھی وضاحت ہے۔ کچھ دوستوں کی تحریریں بھی ہیں۔ مثلاً محمد خالد اختر بتاتے ہیں:
’’وہ اپنے پروفیسر کا چہیتا طالبِ علم تھا (دورانِ طالبِ علمی ہی میں) اُس کی پہلی ہی کہانی اختر شیرانی کے رسالے ’’رومان‘‘ میں اشاعت کے لئے قبول کر لی گئی ‘‘
’’(ملازمت کی تلاش کے دوران) لاہور میں اس کی بے کاری اور مایوسی میں ندیمؔ کو بالآخر ایک سہارا ملا۔ ایک دوست جس نے اپنی شفقت کے پروں میں لے لیا۔ یہ اختر شیرانی، تپتے جذبات اور ایروز کا شاعر تھا۔ دو مختلف رنگ ڈھنگ کے آدمی ایک دوسرے کے قریب کیوں کر آگئے۔ مجھے بڑا عجیب لگتا ہے۔ پنجابی برنرؔ اپنے رند ہونے کے باوجود ایک فن کار تھا۔ اس لئے اپنے نوجوان قلم کار کا جوہر بھانپتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ مجھے یاد ہے ندیمؔ نے مجھے اپنے ایک خط میں لکھا:’’تم لاہور آؤ گے تو میں تمہیں اختر شیرانی سے ملاؤں گا۔ اس جیسا پیارا آدمی میں نے اور کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ معلوم ہوتا ہے اختر شیرانی ایک بڑا فراخ دل شخص تھا اور درد مندی اور انسانی محبت کے جذبات اس میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔ اختر شیرانی کے لئے بڑی محبت اور قدر کے باوجود ندیمؔ نے خود کو اس کے رنگ میں نہ رنگنے دیا ۔‘‘
’’اختر شیرانی کے بعد مولانا عبدالمجید سالکؔ نے جواں سال شاعر کو اخلاقی اور مالی سنبھالا دیا۔ سالکؔ ’’نیاز مندانِ لاہور‘‘ کے حلقے کا روحِ رواں، ’’انقلاب‘‘ میں ناقابلِ تقلید، نکھری نثر میں ’’افکار و حوادث‘‘ کا راقم، ادبی و سیاسی حلقوں میں با رسوخ تھا۔ اُس کی دل چسپ، شگفتہ، چٹکلوں سے بھری گفتگو نے ندیمؔ کو گرویدہ کرلیا اور ندیمؔ نے بھی اس کے دل میں جگہ پیدا کر لی۔ عمروں میں تفاوت کی وجہ سے ندیمؔ نے ہمیشہ اپنے تعلقات میں حفظِ مراتب کو ملحوظ رکھا۔ مولانا عبد المجید سالکؔ کی توسط سے وہ ’’نیازمندانِ لاہور‘‘ کے گروپ کے مشاہیر اور دوسرے ادبی لوگوں سے متعارف ہوا۔ (سالک صاحب سے ندیمؔ کا تعارف ندیمؔ کے خالہ زاد بھائی مولانا غلام مرشد صاحب خطیب بادشاہی مسجد نے کروایا تھا)۔ دارالاشاعت پنجاب کے امتیاز علی تاج کو اپنے بچوں کے ہفتہ وار رسالے’’پھول‘‘ کے لئے ایک اچھے مدیر کی جستجو تھی۔ سالک نے تاج سے ’’پھول‘‘ کی ادارت کے لئے ندیمؔ کی سفارش کی، بلکہ ندیمؔ کو اپنے دوست کے حوالے کر دیا، سالکؔ جو ندیمؔ سے اپنے بیٹے کی سی محبت کرتا تھا۔ اس کی دل جوئی کے لئے اکثر وہاں آ نکلتا۔ ’’پھول‘‘ میں ندیمؔ نے کتنی ہی اچھی نظمیں لکھیں۔ سالکؔ کے کہنے پر ندیمؔ نے اپنی کہانیاں کتاب کی صورت میں طباعت کے لئے جمع کیں اور اس کی پہلی کتاب موسوم بہ ’’چوپال‘‘ دارالاشاعت پنجاب کے مطبع سے شائع ہوئی۔‘‘
جبکہ احمد ندیمؔ قاسمی، سالکؔ صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
’’مجھ پر، میری شخصیت اور میری شاعری پر سب سے بھاری احسان گرامی قدر مولانا عبدالمجید سالکؔ مدیر روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور نے کیا۔ وہ بھی اختر شیرانی صاحب کی طرح ایک آدھ لفظ ادھر سے اُدھر کر کے شعر کے میعار کو انتہائی بلندی پر لے جاتے تھے اور میں اس خاموش رہنمائی سے فیض یاب ہوتا رہتا تھا اگر میری زندگی میں وہ وارد نہ ہوتے تو میں یہاں وہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا عملاً ختم ہو جاتا۔ میں جو کچھ بھی ہوں انہی کی محبت اور حوصلہ افزائی کا ثمر ہوں۔‘‘
سالکؔ صاحب عمر بھر کے لئے ندیمؔ کے آئیڈیل اور مثالی نمونہ رہے اور وہ خود بھی اُن کے جیسا زندہ وتابندہ شفیق رہنما یانہ سلوک نوجوان نسل سے کرتے رہے۔ یوں ندیمؔ نے خود بھی رہنما کا مقام حاصل کر لیا۔ بقول الطاف حسن قریشی:
’’وہ ایک مشفق اُستاد تھے۔ ریاکاری اور فریبِ نفس سے پاک تھے اور دوسروں کے لئے خیر خواہی کا ایک چشمہء آبِ حیات تھے۔‘‘
احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کے بارے میں ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے:
’’ذاتی طور پر میں اُنہیں معلم کا درجہ دیتا ہوں، ان معنی میں معلم، کہ باِد مخالف کی تندی میں کیسے دستار کو گرنے نہ دیا جائے، دشنام کے ہنگام میں کیسے لبوں پر مسکراہٹ سجائی جائے اور کیسے اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اس لحاظ سے میں اُنہیں اپنا معلم سمجھتا ہوں کہ اُن سے میں نے صبر و استقامت سے جادہء حیات پر گامزن رہنے کے درس کے ساتھ وقار سے خاموش رہنے کا علم بھی حاصل کیا۔ یہ آسان سبق نہیں لیکن قاسمی صاحب کی عملی زندگی نے یہ نقطہ روشن کر دیا کہ خودی سے زیست کرنا مشکل سہی مگر ناممکن نہیں۔‘‘
ندیمؔ دوست
ندیم کا مطلب ہی دوست ہے اور ندیم بہت دوست دار اور تعلقات نباہنے والے انسان تھے۔ نوے برس کی عمر میں بھی بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل اِن کے اَن گنت دوست بنے۔ خاص خاص چنیدہ دوستوں کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ وہ سراپا دوستی تھے۔ نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن ندیم ؔ کے نزدیک تو:
گل ترے دل میں کِھلیں اور مہک جاؤں میں
اسی رشتے میں ہر انسان کو پرونا چاہوں
ساری دنیا میرا کعبہ سارے انسان میرے محبوب
دشمن بھی دو چار تھے لیکن دشمن بھی تو تھے انسان
ندیم کے ایک دوست محمد کاظم کی رائے دیکھ لیتے ہیں ۔ وہ اپنے ایک مضمون ’’احمد ندیم قاسمی ایک تعلق کی یاد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہ کچھ مثالیں اُن دوستوں کی جن کے ساتھ ندیم نے بہت قریبی تعلق محسوس کیا اور اُ نکے ساتھ قلبی تعلق رکھے۔ ایسی کئی اور شخصیتیں ہونگی ۔۔۔۔ ہونگی کیا، یقینا تھیں ۔۔۔۔۔ جو ندیم کی زندگی کے ہر دور میں بہار کے جھونکے کی طرح آئیں اور اُنکے شب وروز کو درخشندہ اور با معنی بنا دیا۔ ندیمؔ کے پاس دراصل محبت کا ’’اَن گھٹ‘‘ خزانہ تھا جسے وہ ہر دور میں اپنے قریبی دوستوں اور تعلق والوں پر لٹاتے رہے تھے۔‘‘
اپنے دوست خالد محمد اختر کے بارے میں احمد ندیمؔ قاسمی بتاتے ہیں کہ:
’’جب میں صادق ایجرٹن کالج میں زیرِ تعلیم تھا تو آج کے نامور ادیب، طنز نگار اور سفر نامہ نویس جناب محمد خالد اختر سے میرے دوستانہ روابط استوار تھے ۔۔۔۔۔ وہ انگریزی فکشن کے عاشق تھے۔ متعدد انگریزی اہلِ قلم کی کتابیں مجھے پڑھنے کو دیں اور ساتھ ساتھ اُکساتے رہے کہ میں بھی کہانیاں لکھوں۔ یہ انہی کی عنایت ہے کہ میں نے افسانہ نگاری اختیار کی اور یوں اپنے تخلیقی جوہر کو ایک طرح سے غیر محدود کر دیا ۔‘‘
جبکہ نامور نقّاد احتشام حُسین کا کہنا ہے کہ:
’’ایک اچھے شاعر اور افسانہ نگار، ایک اچھے دوست اوراچھے انسان کی ساری خوبیاں قاسمی میں جمع ہو گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ انہیں پنجاب کے دیہاتوں نے، ماحول کی کشمکش نے، پیرزادگی کے اخلاقی تصور نے،علم وآگہی کی پیاس نے اور انسانی محبت کے احساس نے جو کچھ دیا ہے وہ اُن کے حسین اور توانا پہلوؤں کو اپنے افسانوں اور اپنی نظموں کے ذریعہ عام کر رہے ہیں۔ مجھے مسرت اور اعتماد ہے کہ اس نادیدہ محبت میں مجھ سے غلطی نہیں ہوئی۔‘‘
ندیم پسندیدہ شخصیت
ندیمؔ سب سے زیادہ جس انسان کی خوبیوں کے معترف تھے وہ حضرت محمد ؐہیں۔ پھر اُنہیں انسانوں کا بھلا چاہنے والے بہت پسند تھے۔ وہ بلا تعصب، انسانی خامیوں کو نظر انداز کر کے خوبیوں پر نظر رکھتے۔ وہ ایڈیسن کی انسان دوست دریافتوں کا ذکر بھی پیار سے کرتے اور گوتم اور رام کے انسان دوست روّیوں کی بھی قدر کرتے، جبکہ سچے فن کاروں کے تو وہ عاشق تھے۔ سبھی فنونِ لطیفہ کے آرٹسٹوں کی خوبیاں بیان کرتے۔ اس انسان دوست شخص کی پسندیدہ شخصیات کی فہرست بھی مختصر نہیں ہے۔ ایک ذرا سی جھلک ملاحظہ کیجئے، خود فرماتے ہیں کہ:
’’میں آج بھی حضرت عمرؓ کا قصیدہ تک لکھنے کو تیار ہوں۔ میں عمر بن عبدالعزیز کے زہد وتقوی کا معترف ہوں اور ٹیپو کی وطن دوستی سے پیار کرتا ہوں ۔‘‘
محمد اقبال نے ندیمؔ کی پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں درج ذیل کو شامل کیا ہے:
’’اختر شیرانی، عبدالمجید سالکؔ، جوش، منٹو، کرشن چندر، غالب، اقبال، عرفی، ہومر، افلاطون، ایلیٹ، پاؤنڈ، گوئٹے، شیکسپیئر، ٹالسٹائی، گورکی، فلابیر، برٹینڈرسل، ابنِ خلدون اور آئن سٹائن وغیرہ۔‘‘
ندیمؔ اختلاف
ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین ودل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں
(غالبؔ )
میں کسی شخص سے بے زار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بے کار نہیں ہو سکتا
(ندیمؔ )
ندیمؔ صاحب کو قدرت نے سوچنے سمجھنے والا عالی شان دماغ اور گہرا احساس رکھنے والا حسین سنہری دل، دونوں تو دیئے ہی تھے ساتھ میں جرأت اظہار، صلاحیتِ فیصلہ اور ہمتِ عمل کا سرمایہ بھی بخشا اور صبر و برداشت کی بے پناہ قوت بھی عطا کی تھی، اِن سب نے اُن کی شخصیت کو انوکھا توازن دے رکھا تھا۔ وہ حمایت بھی ڈٹ کر کرتے تھے اور مخالفت بھی کھل کر کرتے۔ ندیمؔ کی شخصیت میں سمائی ان صفات کو ہم آپس میں متصادم صفات نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو اُس ایک ہی منشور نما شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ جس کی ایک ایک کرن میں کئی کئی رنگ ہیں۔ لیکن یہ ایک ہی منبع سے پھوٹ رہی ہیں۔ سو خود اُنہیں دوسروں سے اختلاف رہے اور اُن سے بھی اختلاف کئے گئے۔ وہ جانتے اور مانتے تھے کہ:
’’اختلافِ رائے کا بھی ایک سلیقہ، ایک قرینہ ہوتا ہے جبکہ نارمل روّیوں کے حامل دانش وروں نے مستقل غیر جانب داری کو ناممکن بتایا ہے اور کچھ نے اسے مفاد پرستی اور منافقت کا نام دیا ہے کیونکہ واضح نتیجے تک پہنچنے کے لئے اور گومگو کی کیفیت سے نکلنے کے لئے کسی ایک رائے کا انتخاب تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ سو مثبت اور منفی پہلو جانچ کر اچھے پہلوؤں کی وضاحت اور حمایت کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘
پھر وہ اپنے ضمیر کے اطمینان کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اسی لئے اکثر و بیشتر مطمئن اور خوش رہے لیکن ریاکاری، ناانصافی، ظلم واستحصال دیکھ کر وہ بہت پریشان اور سخت اُداس ہو جاتے۔ چونکہ وہ اُصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے اس لئے انہیں بعض اوقات غصہ بھی آجاتا تھا۔
1966ء میں ناہید قاسمی نے لکھا:
’’اّبا جی کو کبھی کبھی غصّہ آتا ہے۔ مگر یہ عجیب پیارا سا غصّہ ہوتا ہے کہ ہوا کے جھونکے کی طرح آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ غصّے کی حالت میں اُن کی آواز بھاری ہو جاتی ہے۔ وہ غصّے کا اظہار ایک آدھ لفظ میں کرتے ہیں اور اس کے بعد اُسی کو منانے میں لگ جاتے ہیں جس پر اُنہیں غصّہ آیا ہو ۔‘‘
اور 2007ء میں ایک انٹرویو کے دوران ناہید قاسمی نے افضال ریحان کے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں یہ بتایا کہ:
’’جی ہاں ! وہ ایک نارمل انسان کی طرح ناراض بھی ہوتے تھے۔ بالخصوص اپنے عرصہ عمر کے آخری حصہ میں دل دکھائے جانے پر! ایسے موقع پر بھلا کوئی مسکرائے کیسے؟ ظاہر ہے کہ چبھن ہو رہی ہو تو آہ سرزد ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن اپنی بے مثال قوت برداشت کی وجہ سے اور لحاظ اور پاسداری کی وجہ سے کبھی آپے سے باہر نہیں ہوئے۔ مہذب جیسچرز، سنبھلی ہوئی ناراض گفتگو اور ہلکے ہلکے طنز سے اپنی ناراضگی ظاہر کر دیتے تھے۔ اور پھر پہلے کی طرح ہنستے اور ہنساتے۔ اُنہیں ناانصافی، دغابازی، جھوٹ اور الزام تراشی پر غصّہ آتا تھا لیکن اہم بات یہی ہے کہ وہ اُداسی کو جلد ہی اپنے اندر جذب کرلیتے۔ اُن میں مثالی گہرائی، خداداد صبروتحمل اور حیرت انگیز قوت برداشت تھی، وہ اداسی کو دیر تک اپنے اُوپر طاری نہ رہنے دیتے۔ ندیمؔ صاحب اختلاف کے اظہار کو برائی نہیں سمجھتے تھے لیکن اس میں بھی شائستگی کے قائل تھے۔ وہ یہ ضرور کہتے تھے کہ اختلاف نظریاتی ہو تو ٹھیک ہے۔ ذات پر حملے کو وہ سب سے بڑی ادبی بد اخلاقی سمجھتے تھے۔‘‘
’’وہ لحاظ کرنے والے وضع دار انسان تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے سچ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ کچھ لوگ اُن سے سچ سن کر خفا بھی ہوئے۔ حقیقت یہی ہے کہ سچ سننا اور سہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ندیمؔ صاحب کو اگر کبھی کسی سے گلہ شکوہ ہوتا بھی تھا (جو انسانی تعلقات میں کوئی غیر فطری بات نہیں ہے) تو وہ ان شکووں کو اپنے اندر اکٹھا کر کے اس طرح پالتے پوستے نہیں تھے کہ لاوہ بن جائیں اور کسی روز آتش فشاں پھٹ کر تباہی مچا دے۔ وہ گھما پھرا کر یا چھپ چھپا کر وار بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ وہ ذہین، سمجھدار اور حوصلہ مند توتھے لیکن اُن کے مزاج میں مکاّری اور فریب کی بجائے معصومیت، سادگی اور سچائی تھی۔ وہ عدل پسند اور غیور تھے۔ اس لئے اپنی خفگی، اور رنجش کا صاف اور سیدھا اظہار کر دیتے تھے (چاہے یہ سب اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے کسی نظریے یا اپنے کسی عزیز دوست کے لئے ہوتا )۔ دراصل اُن کا مقصد یہ ہوتا کہ فریقین کی انا اور خودداری کے تحفظ کے ساتھ بالآخر صلح صفائی ہو جائے۔ عموماً ندیمؔ کی خفگی جھاگ کی طرح ہوتی، انتہائی ناراضگی میں بھی اپنی طرف سے مہذب رویّوں اور سنبھلی ہوئی گفتگو کا خیال رکھتے۔ خفگی کو بہت دیر تک برقراررکھنا اور بہت دور تک چلانا اُنہیں پسند ہی نہیں تھا۔ وہ دوسروں کو جلد منا لینے اور اسی طرح خود اپنے جلد منا لئے جانے کے قائل تھے:
یہ بھی تو نماز کی قضا ہے
جو روٹھ گئے، انہیں مناؤں‘‘
جبکہ ندیمؔ صاحب ایک انٹرویو میں کہتے ہیں :
’’میرے مخالفین بھی بہت سے ہیں۔ میرے خلاف مضامین بھی لکھتے ہیں لیکن، اُن میں سے نوے فیصد معافی مانگ لیتے ہیں اور میں معاف کر دیتا ہوں۔ یہی میرا معیار اختلاف ہے۔ سوچتا ہوں عین ممکن ہے میرے معاف کرنے سے میرے مخالف کی شخصیت میں ایسا تغیر پیدا ہو کہ آئندہ وہ اس قسم کی حرکت کسی اور کے ساتھ نہ کرے‘‘
جہاں تک اختلاف رائے کی بات ہے چونکہ ندیمؔ کمٹمنٹ کے قائل تھے اس لئے اختلاف رائے کا برملا اظہار دلائل کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ جواب میں اُن کو کبھی ذات پر حملے ملے، حالانکہ مخالف کو بھی ایسے موقع پر اپنی رائے ہی دلیل کے ساتھ دینا چاہیے تھی۔ بہر حال ندیمؔ صاحب کا کہنا ہے:
جو دشمنی پر تلے ہیں، وہ جانتے ہی نہیں
کہ میرے ظاہر و باطن فقط محبت ہیں
ساری دنیا میرا کعبہ، سب انسان مرے محبوب
دشمن بھی دو چار تھے لیکن دشمن بھی تو تھے انسان
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذانِ کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
ندیمؔ صاحب نے وائس آف جرمنی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا :
’’ذاتی طور پر میرا کوئی گروپ نہیں، میرا گروپ کوئی اگر ہے تو اچھے لوگوں کا، اچھے ادب کا گروپ ہے، اچھے شاعروں، اچھے افسانہ نگاروں کا ہے اور میں نے اپنے رسالے میں بھی انہی لوگوں کو شائع کیا ہے جن کی تخلیقات میرے معیار کے مطابق ہوتی ہیں، چاہے وہ کسی بھی گروپ سے تعلق رکھتے ہوں۔ افسوس یہ ہے کہ جب میں دوسرے ملکوں میں جاتا تھا تو مجھ سے پہلا سوال یہی پوچھا جاتا کہ آپ کیوں گروہ بندیاں کر رہے ہیں اور میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ میں ہر گز ایسا نہیں کر رہا اور جو کر رہے ہیں وہ اُلٹا مجھ پر ہی الزام دھرتے ہیں کہ میرا کوئی گروپ ہے۔ باقی جہاں تک دوستیاں ہیں، ایسے لوگوں سے بھی ہیں جو دوسرے نظریئے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بحیثیت انسان مجھے پسند ہیں تو اس لئے اُن سے میری دوستیاں ہیں اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہونا کہ میں نے کوئی گروپ بنا لیا ہے، سراسر غلط بات ہے۔‘‘
جبکہ 1994ء میں اور پھر2004ء میں فنون کے ایک اہم اور مشہور اداریہ میں ندیمؔ صاحب وضاحت کرتے ہیں کہ:
’’ان سطور میں میرے مخاطب میرے خیر خواہ، میرے بد خواہ، میرے دوست، میرے دشمن، میرا اثبات کرنے والے، میری نفی کرنے والے سبھی ہیں۔‘‘
’’بعض عناصر نے ادبی دُنیا میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک مغالطے کو حقیقت کا رنگ دے کر عام کر رکھا ہے۔ مغالطہ یہ ہے کہ میں ایک ادبی گروہ، یا کسی ادبی گروپ کا سربراہ ہوں۔ اس گروہ کو کبھی ندیمؔ گروپ، کبھی قاسمی گروپ اور کبھی فنون گروپ کا نام دیا جاتا ہے اور اس مغالطے کو بڑے اہتمام کے ساتھ پاکستان، ہندوستان اور دوسرے براعظموں میں رہنے والے اُردو دان طبقوں میں پھیلایا گیا ہے۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ میرا یا میرے احباب کا یا میرے رسالے کا کوئی گروپ نہیں ہے۔ ’’فنون‘‘ کے مندرجات گواہ ہیں کہ گزشتہ برسوں میں اس کا طرزِعمل کاسموپالیٹن رہا ہے۔ ’’فنون ‘‘ کو نظریاتی یا شخصی یا گروہی وابستگیوں سے بلند ہو کر مرتب کیا جاتا ہے۔ اس ادبی مجلے کاایک معیارمقررہے۔ اگر کوئی تحریر اس معیار پر پوری اُترتی ہے تو یہ معلوم کیئے بغیر کہ اس کا مصنف کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے اور کس کا دوست یا دشمن ہے؟ اس معیاری نظم یا غزل یا افسانے یا مضمون کو درج کردیا جاتا ہے۔‘‘
’’مجھے ہمیشہ اپنے کام سے کام رہا ہے میرے پاس جماعت سازیوں اور حلقہ بندیوں کا وقت بھی نہیں ہے اور اتنا روپیہ بھی نہیں ہے کہ کسی گروہ یا کسی فرد کو خرید سکوں۔ پھر مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ زندگی کی مہلت کو کشیدگیوں اور دشمنیوں میں ضائع کرتا پھروں؟‘‘
ندیمؔ نے یہ بھی کہا ہے:
’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے اربابِ سیاست کی طرح یہاں کے اہلِ شعروادب میں بھی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے۔ اختلاف کا حق تو یقیناً سبھی کو حاصل ہے مگر اظہارِ اختلاف کے بھی چند تہذیبی اور اخلاقی معیار ہیں۔ درد ناک بات یہ ہے کہ آج شعروادب کی دُنیا میں مہذب اور اخلاقی معیار بھی گردن زدنی قرار پا چکا ہے اور بہتان دشنام کی ایک آندھی سی چل رہی ہے اس کے ساتھ ہی محسن کشی اوراحسان فراموشی کی وباء بھی شاید اسی احساس کمتری کی وباء کی وجہ سے پھیل رہی ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ کا یہ ارشاد بارہا یاد آتا ہے کہ ’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔‘‘
’’دراصل احساسِ کمتری کی طرح منافقت نے بھی بعض اچھے خاصے شاداب ذہنو ں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے بہر حال آج کے شعروادب کی صورتِ حال انتہائی تشویشناک ہے اور ادب کے ماحول کو مزید آلودہ ہونے سے بچانے کی سعی کرنا ہر ایمان دار اہلِ قلم پر فرض ہے۔‘‘
اسی لئے ڈاکٹر عبدالکریم خالد کی رائے میں:
’’احمد ندیمؔ قاسمی کو اپنی زندگی میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے ساتھ مخالفین کی طعنہ زنی کا سامنا رہا۔ تاہم وہ صبر واستقامت کے ساتھ اپنے ادبی کاموں میں مصروف رہے اور ایک مستعد اور فعال زندگی گزار کر اس عالم میں اس دنیا سے رُخصت ہوئے کہ ان سے محبت کرنے والوں اور عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد اُن کی راہ میں آنکھیں بچھانے اور محبت کے پھول نچھاور کرنے کے لئے موجود تھی۔‘‘
اے حمید ایک دلچسپ واقعہ سُنانے کے بعد بیان کرتے ہیں:
’’میں نے قاسمی صاحب کو لڑائی کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ اختلاف ضرور کرتے تھے۔ نظریاتی اختلاف انہیں ضرور ہوتا تھا اور وہاں یہ سختی سے ڈٹ جاتے اور کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ لوگ ان کے نظریاتی اختلاف کو ذاتی رنجش یا دشمنی کا سبب بنا لیتے اور ذاتیات پر اتر آتے۔ ایک بار لاہور میں رہنے والے ہمارے ایک پرانے ساتھی نے اخبار میں قاسمی صاحب کے خلاف ذاتی رنگ میں مخالفت شروع کر دی۔ پاکستان کونسل کی ایک تقریب میں قاسمی صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مخلصانہ سادگی سے مجھ سے پوچھا :’’یہ شخص میرے خلاف کس لیے لکھ رہا ہے؟ میں نے تو اس کے بارے میں کبھی نامناسب بات نہیں کی‘‘۔
امجد اسلام امجد لکھتے ہیں:
’’اُن کی وفات سے چند گھنٹے قبل اُن کی ذہنی یکسوئی اور احساس ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ اس عالم میں بھی اُنہیں 15 جولائی کو مجلس ترقی ادب کی بورڈ میٹنگ کی فکر تھی کہ اگر وہ ملتوی ہوئی تو کئی ملازمین کے واجبات کا کیس رہ جائے گا جس سے اُن کو مالی پریشانی ہوگی۔ کردار کی ایسی عظمت، وسیع الظرفی اور ناقابل معافی صورت حال میں معاف کر دینے کی صلاحیت اب کتابوں میں نظر آتی ہے‘‘۔
’’احمد ندیمؔ قاسمی ایک ایسی نسل کے آخری نمونوں میں سے تھے جو زندگی کو پورے وثوق سے برتنے پر قادر تھی۔ یہ نسل زندگی کو ایک اجتماعی کل کی حیثیت سے دیکھتی تھی۔ ندیمؔ صاحب کے موضوعات زمینی حقائق سے پوری طرح جڑے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے دُکھ اور ابتلا کو خود اپنی جان پر جھیل کر جانا تھا اُن کی ذات سے وابستگیاں بڑی گہری اور شدید ہیں۔ ہر بڑے آدمی کی طرح انہیں بھی مخالفت، دُشمنی، حسداور بُغض کے رنج سہنا پڑے۔ محبت اور عداوت دونوں دُھند پھیلا دیتی ہیں۔ یہ دُھند چھٹ جائے گی تو اُن کے فن کے حقیقی خدوخال زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔‘‘
ندیمؔ صاحب کے ایک ہم دفتر رکن محمد امجد کے خیال میں:
’’قاسمی صاحب نے نہ صرف عمدہ ادب تخلیق کیا بلکہ عمدہ ادب تخلیق کرایا بھی۔ بے شمار ادیب ایسے ہیں کہ جو انہیں کے تربیت یافتہ ہیں۔ آپ نے لوگوں کو قلم پکڑنا سکھایا، انہیں لکھنا سکھا یا، مگر اُن میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے جب قلم پکڑنا سیکھ لیا تو انہوں نے اُسی قلم کو اُن کے خلاف استعمال کیا۔ مگر قاسمی صاحب اس پر بھی خوش ہیں اور خوشی اُنہیں اسی بات کی ہے کہ وہ جنہیں لکھنا سکھانا چاہتے تھے، انہیں بہرحال لکھنا تو آگیا‘‘۔
منفرد شاعر جوش ملیح آبادی دکھے دل سے کہتے ہیں:
’’مجھ نامراد کی یہ آرزو ہے کہ قاسمی پھولے، پھلے، پروان چڑھے اور اُس کی شاعرانہ برتری کو دنیا جانے اور ماننے کی طرح مانے۔ لیکن میری یہ آرزو پوری نہ ہو سکے گی۔ اس لیے کے ہندوستان اور پاکستان دونوں بدنصیب ملکوں میں ادبی نقطہ نگاہ سے اس قدر اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ لوگ ایک دوسری کے خط وخال دیکھنے سے قاصر ہو چکے ہیں ۔
ارے چراغ جلاؤ بڑا اندھیرا ہے‘‘۔
ظفر اقبال اقرار کرتے ہیں کہ:
’’اُن کی زندگی معرکہ آرئیوں سے خالی نہیں رہی اور انہوں نے اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جبکہ انہوں نے کم ازکم چار نسلوں کو متاثر کیا۔ چونکہ وہ زندگی بھر انتہائی فعال اور زندہ ادیب کی طرح رہے اس لئے لامحالہ ان سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کبھی کمی نہیں رہی۔ لیکن ان کے چاہنے والے مقدار اور تعداد میں اتنے ہیں کہ زندگی میں شاید ہی کسی کو نصیب ہوئے ہوں ۔‘‘
ایسے میں جدید افسانہ نگار رفعت مرتضیٰ یوں اظہارِ خیال کرتی ہیں کہ:
’’نوّے برس کا ایک شخص جس نے تمام عمر لفظ کی حفاظت کی، نوک پلک سنوارنے کی روایت کو آگے بڑھایا، غلط کو غلط کہنے سے رکا نہیں اور سچ کو چھپایا نہیں۔ اُس سے ناراض ہونا ہی ہے تو پھر ناراضگی کی وجہ کا شایان ہونا بھی ضروری ہے۔ نوے برس کا ہر ایک دن ایک انعام، ایک تحفے کی مانند ملتا ہے۔ جس کے بعد ہر ایک لمحہ ایک عید کی طرح منانے کے لئے ہوتا ہے، اس لئے کہ کس کو خبر کہ کچھ کہنے کچھ سننے کے لئے کس کے پاس کتنا وقت رہ گیا ہے۔ مگر ہم ہیں کے ناراض ہو رہے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پربڑی بڑی اناؤں کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ کوئی کہاں تک سُنے، تھک کر پَیر لمبے کر کے لیٹ نہ جائے تو کیا کرے؟‘‘
اور اب شاہد احمد دہلوی کی بات بھی سنیے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’قاسمی صاحب یقیناً عقلمند ہیں کہ بے انتہا زحمتیں گوارا کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں جو کام بھی سونپا گیا اس میں محنت و استقامت سے انہوں نے چار چاند لگا دیے۔ یہ سلیقہ خدا کی دین ہے۔:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
’’مگر ہم بڑے ناگنے لوگ ہیں۔ سچا اعتراف نیکی کو ابھارتا ہے۔ اعتراف تو کجا ہم کسی جوہر قابل کی چمک کو بھی برداشت نہیں کر سکتے شاید ہم بہت ہی چھوٹے دل کے لوگ ہیں۔ قاسمی صاحب کو اپنی بے لوث خدمات کا صلہ مخالفتوں، پریشانیوں بلکہ قیدوبند کی صورت میں ملا۔ مگر وہ دُھن کے پکے تھے۔ تمام پریشانیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ انگیز کر گئے اور مخالفت کی آگ میں جل کر قاسمی صاحب کندن بن گئے۔ جوجِینئس ہوتے ہیں ہمت نہیں ہارتے۔ قاسمی صاحب کو باد مخالف روک نہ سکی اور انکی ہمت کا سفینہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ ناسازگار حالات اور مخالفتوں نے انہیں سخت کوش بنا دیا اور اس سخت کوشی نے انہیں منتہائے عروج پر پہنچادیا۔ ’’ ع آفریں باد بریں ہمتِ مردانہ تو‘‘
جبکہ ڈاکٹر سلیم اختر یہ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ :
’’احمد ندیمؔ قاسمی نہ منافق تھے اور نہ ریا کار، اپنے فنی آدرش کو اپنے قول و فعل سے زندہ رکھا۔ حاسدین، مخالفین اور بدخواہوں نے جو طویل دشناہی مہم چلائے رکھی، وہ نہ تو اُن کے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین سکی اور نہ قلم کی روشنی خشک کر سکی‘‘۔
ندیم اخلاق و ندیم کردار
یہ فقط میرا تخلص ہی نہیں ہے کہ ندیمؔ
میرے کردار کا کردار ہے اور نام کا نام
ندیمؔ شخصیت کے اس پہلو پر ان گنت اشخاص نے اظہار خیال کیا ہے۔ یہاں بس چند ایک اقتباسات ملاحظہ کیجئے:
ندیمؔ کے ہم علاقہ، کرامت بخاری لکھتے ہیں:
’’وہ محنت خلوص، لگن، رواداری، وضعداری، بردباری، اور ایما نداری جیسی خصوصیات کے حامل تھے‘‘
محمد سعید شیخ نے کہا ہے کہ:
’’میں نے انکو دوستوں کا گلہ کرتے اورشکائیت کرتے نہیں سنا۔ انکی پیشانی سلوٹوں سے پاک رہتی تھی۔ اُن سے بات کرنا، انکے پاس بیٹھنا ایک انعام تھا، ایک اعزاز تھا‘‘۔
اس سلسلے میں جوشؔ ملیح آبادی کا مشہور قول دہراتے ہیں:
’’جب کسی مدعی شاعر سے دوچار ہوں، تو سب سے پہلے اس بات کی تحقیق کریں کہ اس کا کردار کیا ہے۔ اس کا اقارب و احباب سے برتاؤ کیا ہے اور اگر اس کھوج میں اُن کے علم میں یہ بات آجائے کہ وہ دروغ گفتار، خلوص بیزار، جفا شعار، زر پرستار، فریب کار اور غدّار ہے تو آنکھیں بند کر کے یہ فیصلہ کر لیں کے وہ ہر گز شاعر نہیں ہے۔ شاعری و انسانیت کے پیمبرانہ معیار پر نگاہ کر کے جب قاسمی کی طرف نظر اٹھاتا ہوں تو بلا خوف ابطال یہ نعرہ لگاتا ہوں کہ قاسمی حقیقی شاعر اور انسانیت و شعریت کا ایک ایسا دل کشا سنگم ہے جس کا اور چھور نہیں مل سکتا۔‘‘
صلاح الدین حیدر نے تحریر کیا ہے کہ:
’’اس حقیقت سے اکثر احباب آگاہ ہیں کہ وہ اپنے ترقی پسند نظریات کے باعث مشکلات اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود اُن کے چہرے پر ایک طمانیت کے ساتھ مسکراہٹ کھیلتی ہوئی ملتی تھی۔ آنکھوں میں زندگی سے لبریز شوخی اور اعتماد کی لہر نظر آتی وہ اختلافِ فکرونظر کو ذاتی عناد میں بدلنے کے رویئے کو اچھا نہ سمجھتے تھے۔‘‘
اور ڈاکٹر مسرور احمد زئی کا کہنا ہے کہ:
’’اُس روز قاسمی صاحب تبسم آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بے تکان ماضی کو دُہرا رہے تھے، نہ لہجے میں تلخی، نہ جملوں میں بے اعتدالی، نہ الفاظ میں تُرشی، نہ بیان میں تلخی، نہ کسی کی دل شکنی، نہ اپنی تعریف میں طول کلامی، (قاسمی صاحب دردمند دل رکھتے تھے، حساس طبیعت کے مالک تھے۔ وہ پوری انسانیت کو اپنا سمجھتے تھے) دراصل یہی اُن کی شخصیت کے وہ پہلو تھے جِس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنے معاصرین میں ممتاز اور ممیز رہے۔‘‘
ندیمؔ مزاج
ندیمؔ کے دوست محمد کاظم بتاتے ہیں کہ:
’’ندیمؔ کی شخصیت کا دوسرا پہلو اُن کا وہ احساسِ ذمہ داری تھا جس کا ثبوت وہ اپنے دوستوں اور پیاروں کے نجی اور ذاتی معاملات میں دیتے تھے۔‘‘
مسعود اشعر لکھتے ہیں:
’’تمام کڑوی کسیلی باتوں کے باوجود اُن کے مزاج میں کڑواہٹ نہیں آئی تھی ہم (میں اور کاظم صاحب) جب بھی اُن کے پاس جاتے، وہ اسی طرح خوش گوار موڈ میں نظر آتے۔ اُن کا ہنسی مذاق اور اُن کے لطیفے اسی طرح چلتے رہتے۔‘‘
ڈاکٹر خورشید رضوی کا کہنا ہے کہ:
’’قاسمی صاحب کا شعر:
یوں تو سمیٹ شوق سے توشتہء آخرت مگر
وہ جو ہیں زندہ اُن پہ کچھ قرض ہیں زندگی کے بھی
اُن کے شخصی رویے کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ وہ بڑے زبردست رجائی تھے اور انہیں رحمتِ الہیٰ پر بڑا زبردست اعتماد تھا۔ چنانچہ توشہء آخرت کی انہیں زیادہ فکر نہ تھی مگر زندگی کے قرض نبٹانے کی اُن میں بڑی تڑپ تھی۔ وہ روئے زمین پر خصوصاً وطنِ عزیز میں جس زندگی کو دیکھنے کے تمنائی تھے اُس کا اظہاراُن کی مشہور نظم ’’وطن کے لئے دُعا‘‘ میں بھر پور طریقے سے ہوا ہے۔
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو‘‘
ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے لکھا ہے کہ:
’’اُن کی شخصیت کا ایک خاص وصف اُن کے حلقہء ادارت پر اس وقت کھُلتا تھا جب وہ انتہائی محبت و احترام سے دوسروں کو مخاطب کرتے تھے۔‘‘
فیاض عزیز اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’بقول قیوم نظامی، اُن کے پاس بیٹھ کر اپنے ہونے کا احساس ہوتا تھا اور بڑے بڑے سیاست دانوں اور دانش وروں کے پاس بیٹھ کر صرف اُن کے ہونے کا پتہ چلتا تھا جو صرف خود کو اُبھارتے تھے۔ اپنے نام نہاد اورجُھوٹے کاموں اور کارناموں کو اُجاگر کرتے تھے لیکن قاسمی صاحب دوسروں کو اُجاگر کرتے تھے۔ اُن کے ہنر اور ٹیلنٹ کی بات کرتے تھے اور انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے تھے۔ ایسا کوئی سچا انسان ہی کرسکتا تھا، کوئی معمولی شخص نہیں۔‘‘
ندیمؔ سلیقہ
بقول ڈاکٹر خورشید رضوی:
’’قاسمی صاحب ایک ان تھک انسان تھے۔ وہ آخری زمانے تک دن بھر محنت میں لگے رہتے۔ وقت کی تنظیم (ٹائم مینیجمنٹ) کا اُن میں ایک فطری ملکہ تھا۔ وہ مصروف نظر آئے بغیر مصروف رہ سکتے تھے اور سنجیدگی طاری کئے بغیر اپنے کام میں سنجیدہ تھے۔ اُن کے ذہن کے بطون میں ایک ترتیب تھی جو خود کو ایک جبلی سلقیے سے نافذ کرتی رہتی تھی۔‘‘
پروفیسر سلیم الرحمٰن تحریر کرتے ہیں کہ:
’’اُنہوں نے بڑی لگن اور تن دہی سے کہیں دُور رکھی ہوئی کتاب ڈھونڈ کر مجھے عنایت فرمائی تھی۔ یہ کتاب ’’منٹو کے خطوط‘‘ تھی ۔۔۔۔۔ مجھے عنایت فرماتے ہوئے اُن کا جو انداز اور پُرجمال سلیقہ تھا وہ میرے لئے کسی ادبی ایوارڈ سے کم نہیں۔‘‘
محمد احسن فاروقی کی رائے میں:
’’قاسمی صاحب کے ٹھہراؤ اور توازن اور نرمی میں ایک طوفان چھپا نظر آتا ہے۔ وہ ان لوگوں میں ضرور ہیں جن کے بحر کی موجوں میں کمال اضطراب ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس کو قابو میں رکھ کر ایک مخصوص رُخ کی طرف چلا کر مفید عام بنانے کا بھی شعورہے ۔۔۔ اس لئے میں انہیں ماڈل ادیب مانتا ہوں۔‘‘
قاسمی صاحب کی بیگم رابعہ ندیمؔ نے ایک انٹرویو میں شہناز پروین سحر کو بتایا کہ:
’’مجھے اُن کی صفائی ستھرائی کی عادت پسند ہے۔ زندگی گزارنے کا وہ ایک خاص سلیقہ رکھتے ہیں اور یہ سلیقہ مجھے بے حد عزیز ہے، وہ بے حد خوش مزاج ہیں، بے حد صاف گو ہیں، کبھی کوئی لگی لپٹی اُٹھا کر نہیں رکھتے۔ اس طرح بعض دفعہ مشکلات میں بھی گھر جاتے ہیں مگر مجھے ان کی صاف گوئی سے پیار ہے۔‘‘
جبکہ اُن کی بیٹی ناہید قاسمی نے لکھا ہے کہ:
’’ابّا جی اپنی ایک بیوی، تین بچوں اور ایک ملازم کے باوجود اکثر اپنے کام خود کر لیتے ہیں۔ مثلا جو کپڑے بدلتے ہوئے اُتارے، وہ خود تہ کر کے رکھ دیئے یا ٹانگ دیئے۔ شیو کی اور شیو کا سامان خود ہی صاف کر کے قرینے سے رکھ دیا۔‘‘
ندیمؔ گفتگو
احمد ندیمؔ قاسمی جہاں بہت توجہ سے دوسروں کی بات سُنا کرتے تھے وہیں خود بھی بے حد خوش گفتار تھے۔ اشفاق احمد اکثر کہا کرتے کہ جب ندیمؔ صاحب بول رہے ہوں تو جی چاہتا ہے کہ اُن کی گفتگو اگلی نسلوں کے لئے محفوظ کر لی جائے۔
محمد خالد اختر کے خیال میں:
’’اُس کی گفت گو پُر لطف، دل پذیر اور شگفتہ ہوتی ہے۔‘‘
محمد کاظم لکھتے ہیں کہ:
’’فنون کے دفتر میں مَیں نے ندیمؔ صاحب کی شخصیت کا ایک خاص رُخ، جس پر میں نے اس سے پہلے غور نہیں کیا تھا، بہت قریب سے دیکھا۔ وہ یہ کہ ندیمؔ بیحد دلچسپ گفتگو کرنے والے اور ایک قدرتی اور ماہرِ فن لطیفہ گو تھے۔ اُن کی لطیفہ گوئی کا انداز اتنا دل آویز ہوتا تھا کہ ان کی زبان سے ایک ہی لطیفہ دسویں بار سُننے پر بھی یوں لگتا جیسے پہلی بار سُنا ہو۔‘‘
ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے لکھا ہے کہ:
’’اُن کی شخصیت کا ایک خاص وصف ان کے حلقہء ادارت پر اس وقت کھلتا تھا جب وہ انتہائی محبت اور احترام سے دوسرے کو مخاطب کرتے تھے۔ یہ اُن کا بڑا پن تھا کہ اُنہوں نے شرف وعظمت کی اونچی مسند پر بیٹھنے کے باوجود اپنے کسی عمل یا گفتگو سے اس کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اُن کی عظیم شخصیت کا کمال یہ تھا کہ اُنہوں نے غیروں کی سنگ زنی اور مخالفوں کی دشنام کے باوجود اپنی انسانیت نوازی اور انسان دوستی کے رویے میں فرق نہیں آنے دیا ۔‘‘
ہارون الرشید کی رائے میں:
’’ہمارے ملک میں اُردو ادب میں بڑے بڑے نام ہیں لیکن ندیمؔ صاحب کی شخصیت کے اندر جو ملکوتی حُسن، وجاہت، نفاست اور ایک ہمہ گیر درویشی کا جو عنصر دیکھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا ۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ خود کم بولتے تھے اور مخاطب کو زیادہ بولنے کا موقع دیتے تھے اور اس کی گفتگو ہمہ تن گوش سُنا کرتے تھے۔‘‘
علی تنہا نے بتایا کہ:
’’انہیں وادیء سون سکسیر کی بولی، مبدائے فیض سے عطا ہوئی تھی۔ میں جب بھی اُن کی مادری زبان میں اُن سے بات کرتا تو اُن کے چہرے پر بے پایاں محبت منعکس ہو جاتی۔ وہ اتنی صحت اور باریکی سے اپنی بولی میں جواب دیتے کہ معلوم پڑتا، یہ انگہ سے باہر گئے ہی نہیں۔ اپنے صاحب زادے نعمان ندیمؔ سے اپنی بولی میں بات کرتے، بہت بھلے لگتے۔‘‘
پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ:
’’مشاعروں میں اُن کا اندازِ اظہار سب سے منفرد نظر آتا، بہت سے شعراء اُن کی طرح شعر کو پڑھنے کی کوشش کرتے لیکن احمد ندیمؔ قاسمی کا لب و لہجہ اور اُن کا مخصوص زاویہء نظر کسی اور کو نہ ملا۔‘‘
ناہید قاسمی کے مطابق:
’’گھر میں گفتگو کے دوران ابّا جی اکثر اپنے دوستوں، شاعروں، ادیبوں، فن کاروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ اپنے ہم عصروں کے بارے میں ہمیں بہت سی باتیں بتاتے۔ اُن کی گفتگو کا انداز اس قدر دلچسپ اور پُرکشش ہوتا کہ زندگی سے بھر پور یہ شخصیات ہمیں اپنے ابّا جی کے ہم قدم چلتی پھرتی، ہنستی بولتی محسوس ہوتیں۔‘‘
’’عام طور پر لوگ ساٹھ ستر برس کی عمر ہی میں گوشہ نشین اور خلوت پسند ہو جاتے ہیں لیکن ندیمؔ اپنے نوے (90) ویں برس میں بھی مکمل مجلسی آدمی رہے۔ وہ ایسی اچھی گفتگو کرتے کہ گھنٹوں بیٹھے سنتے رہیں اور پھر بھی جی نہ بھرے۔ ایسے خوب صورت لمحوں میں اُن کی آواز کا زیروبم، اُن کے لہجے کی گرفت، اُن کی سمٹتی کھلتی آنکھوں کی کشش اور اُن کے چہرے اور ہاتھوں سمیت اُن کے پورے وجود سے پھوٹتی متحرک زندگی، ندیمؔ کے دبلے پتلے مگر حسین اور بارُعب وجود میں انوکھی باوقار توانائی بھر دیتی۔‘‘
ندیمؔ محفل
صلاح الدین حیدر نے تحریر کیا ہے:
‘‘فنون اور ’’مجلسِ ترقیء ادب‘‘ کی محفلوں میں وہ ماضی کے واقعات، معاصرین کے خاکے، مختلف لطائف وغیرہ دلچسپ پیرائے میں سُناتے۔ لیکن بے تکلفی کی فضا کے باوجود اُن محفلوں میں ایک نظم و ضبط اور ذمہ داری کا احساس بھی رہتا تھا ’’فنون‘‘ کے دفتر میں شام کو اُن کی روانگی تک بزم کی رونق میں کوئی کمی نہ آتی۔‘‘
ڈاکٹر صابر آفاقی رونقِ محفل کے رُخصت ہونے پر کہتے ہیں:
’’ہمارے دُکھ بانٹنے والا، ہمارے زخموں پر پھاہا رکھنے والا، مسکراہٹیں بکھیرنے والا، ہم سے روٹھ گیا ۔۔۔۔۔ اب ہم کس کے سامنے اپنے دُکھ بیان کریں گے؟ غم کی کہانی کس کو سُنائیں گے کہ ہمارا غم خوار تو چل بسا۔‘‘
مستنصر حسین تارڑ یاد کرتے ہیں کہ:
’’فنون کے دفتر میں جمعہ کے روز ’’اکٹھ‘‘ ہوتا تھا۔ جس میں نہایت پائے کے ادیب اور فلسفی بھی شامل ہوتے۔ محمد خالد اختر کے علاوہ محمد کاظم اور سید علی عباس جلال پوری سے بھی میری پہلی ملاقات ’’فنون‘‘ کے اس دفتر میں ہوئی۔ میں نے ان تمام لوگوں سے بہت کچھ سیکھا۔ یہاں نہایت ہی دقیق قسم کی گفتگو بھی چلتی اور کبھی لطیفے بھی چلتے۔‘‘
علی اصغر عباس کا کہنا ہے:
’’سب کا ندیمؔ، احمد ندیمؔ قاسمی سب سے پیار کرتا تھا، محبت بانٹتا تھا، شفقت لُٹاتا تھا۔ جس کی محفل میں لوگ دلوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے تھے۔ وہ سب کی سُنتا، کوئی روتا ہوا آتا تو ہنستا ہوا واپس جاتا، مایوس آتا اور پُراُمید لوٹتا، زندگی سے ناراض آتا تو حیاتِ نو کے جذبے سے سرشار ہو کر زندگی کے تیز تر دھارے میں شامل ہو جاتا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ یہ محفل اس ندیمؔ کی ہوتی تھی جو کہا کرتا تھا:
میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بے کار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا‘‘
محمد سعید شیخ لکھتے ہیں:
’’قاسمی صاحب کے پاس بیٹھنے سے یوں لگتا تھا جیسے میں کسی گھنے برگد کی گھنیری چھاؤں میں بیٹھا ہوں، جس کی چھاؤں ہر راہی، ہر مسافر اور تھکے ہارے گرفتہ پا کے لئے برابر مہربان تھی۔‘‘
میں ایک گھنا پیڑ سرِراہ گزر ہوں
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ محبت
داورِ حشر مجھے تیری قسم
عمر بھر میں نے عبادت کی ہے
تُو مرا نامہء اعمال تو دیکھ
میں نے انساں سے محبت کی ہے
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ کی پہلی محبت اُن کی ’’مائے‘‘ (والدہ) ہے۔ اُس کے بعد شعر وادب جبکہ معروف معنوں کی سچی محبت کے سلسلے میں بیس برس کی عمر میں انہیں گاؤں کی معصوم الہڑ ’’صبوحی‘‘ اچھی تو لگی لیکن چند برس بعد انہیں گہری اور حقیقی محبت ایک سلجھی ہوئی، پڑھی لکھی شہری لڑکی سے ہوئی۔ ندیمؔ صاحب سے خالد سہیل نے پوچھا:
’’قاسمی صاحب! آپ نے اپنی اصلی محبوبہ کا نام پوشیدہ کیوں رکھا؟‘‘ تو ندیمؔ صاحب نے جواب دیا:’’پاکستان میں محبوبہ کانام نہیں بتایا جاتا ۔۔۔۔۔ ویسے میں یہ کہہ دوں کہ جو شخص محبت نہیں کر سکتا وہ شعر بھی نہیں کہہ سکتا۔ سو، محبت میں نے کی ہے لیکن آپ کو اس کی تفصیل نہیں بتا سکتا۔‘‘
ناہید قاسمی کے خیال میں:
’’احمد ندیمؔ قاسمی کے نزدیک محبت دراصل کسی کی خوبیوں کا اقرار کرنا اور ساتھ ہی اُن خوبیوں سے اثر پذیر ہونے والی اپنی حسِ لطیف کا اثبات کرنا ہے۔ ندیمؔ محبت کوکوئی کاروبار، لین دین یا سودا نہیں سمجھتے، نہ ہی اسے عام معمول کی بات کہتے ہیں۔ اپنے دیگر رویوں کی طرح محبت کے سلسلے میں بھی ندیمؔ مخصوص رومانویت یا صرف مادیت کے حامی نہیں ہیں، بلکہ اپنی معتدل مزاجی کی بدولت ان احساسات میں بھی ۔۔۔۔۔ عقل وشعور کے استعمال کے قائل ہیں۔ اسی لئے جذبہء عشق کو صرف ایک خیال یا پھر محض ایک تقاضہء بدن کے طور پر قبول کرنے کی بجائے جسم و جان میں توازن قائم کر کے اسے ایک اعلی مرتبے پر فائز کرتے ہیں۔ وہ عشق کو زندگی کی تہذیب کہتے ہیں اور یہ بھی کہ عشق ہی کی قوت ہے جو آزمائشوں میں حوصلہ بخشتی ہے۔‘‘
بہر حال زندگی کی جد وجہد کے آغاز ہی میں ان محبتوں میں ایسا نور تھا، اتنی قوت تھی کہ پھر ندیمؔ تمام عمر مختلف افراد میں محبتیں ہی بانٹتے رہے لیکن یہ انمول خزانہ ختم نہ ہوا۔
تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے محبت میں نے
’’ندیمؔ‘‘
یہ بھی ہوا کہ :
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری اُلفت نے محبت مری عادت کردی
’’ندیمؔ‘‘
بالآخر انسان ہی اُن کا اصل محبوب ٹھہرا اور اس کے مختلف روپ کو وہ بزرگ، راہنما، دوست، بھائی بہنیں اور بیٹے بیٹیاں کہہ کر مؤدب طالب علم، مخلص دوست، سگے بھائی اور شفیق والد جیسی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتے رہے۔
یہ تو تھی ندیمؔ کی محبتوں کی جھلک، اب ندیمؔ سے محبت پر نظر ڈالتے ہیں۔خوش قسمت ندیمؔ کوحاصل ہونے والی محبتوں کی کوئی حد نہیں تھی۔ انہیں ہر طرح کی محبت (اس میں پُر خلوص، گہری اور سچّی محبت کے ساتھ ساتھ، کچھ کچھ خود غرضانہ، مطلبی اور یک طرفہ محبت بھی شامل ہے) میسر رہی۔ بڑے بوڑھوں سے لے کر ننھے بچوں تک کی مخلص محبت، مرد حضرات سے لے کر خواتین تک کی سچی محبت اور دانش وروں سے لے کر عام مستری مزدور تک کی گہری محبت، اسی لئے تو ندیمؔ کہتے ہیں کہ:
’’مجھے زندگی میں بے انتہا محبت میسر آئی ہے، بھائی کی محبت، محبوبہ کی محبت، دوستوں کی محبت، میری ادبی کاوشوں کو سراہنے والوں کی محبت، لیکن ماں کی محبت کا میں اس لئے سب سے زیادہ سپاس گزار ہوں کہ اس محبت نے مجھے پتھر نہیں بننے دیا۔ اگر میرے ادب میں “پیتھوز” کا کہیں وجود ہے تو یہ میری ماں کی دین ہے اور اگر میں انفرادی دُکھ کے حصار سے نکل آیا ہوں، تو یہ بھی انہی کی دین ہے۔‘‘
جبکہ ڈاکٹر ناہید قاسمی کے خیال میں :
’’ہم سب کے ندیمؔ نے بے حد و حساب محبت کی ہے۔ یہ تو اُن کی بڑی خوش نصیبی ہے کہ انہیں جواب میں بھی بے انتہا پیار ملا۔ بچپن سے آخر تک پیار ملا، اپنی والدہ سے، بھائی، بہن، بیوی اور اولاد سے بھی، دوست، احباب سے بھی اور اپنے پرستاروں، اپنے چاہنے والوں سے بھی لیکن اس نہایت اچھے اور مثالی جواب کے باوجود اور اِس انوکھے پیارے صلے کے باوجود میں سمجھتی ہوں اور محسوس کرتی ہوں کہ ایک رُخ، ایک پہلو شاید ندیمؔ کی نفیس خواہش کے مطابق مکمل نہیں ہو پایا۔ میرے خیال میں ہمارا یہ عظیم ’’محب شاعر‘‘ محبتوں کے لئے بہت قربانی دینے والا سخی فن کار، اس لحاظ سے تشنہ رہ گیا۔ وجہ یہ ہے کہ:
یہ جو اِک عمر سے کچھ کھوجتا پھرتا ہے ندیمؔ
صرف بے لوث محبت کا تمنائی ہے ۔‘‘
اور ندیمؔ کے ایک قریبی دوست محمد کاظم کا کہنا ہے کہ:
’’اُن کو جس کسی کے ساتھ دلی تعلق ہوتا اس کے ساتھ اپنے اس تعلق اور لگاؤ کا اظہار وہ بہت کھل کر اور جذبے کی گہرائی کے ساتھ کرتے اپنی محبت اور التفات میں ندیمؔ صاحب ایک دریا کی مانند تھے۔ جس کا تیز دھارا کبھی ایک کنارے کو چھوتے ہوا چلا جاتا اور کبھی اس کے مقابل دوسرے کنارے کو! ندیمؔ کے پاس اصل میں محبت اور چاہت کا ایک ’’ان گھٹ‘‘ خزانہ تھا جسے وہ ہر دور میں اپنے قریبی دوستوں اور تعلق والوں پر لُٹاتے رہے تھے یہ کہانی جب بھی کہی گئی۔ بہت دلچسپ ہو گی۔‘‘
ندیمؔ انسانیت
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں غریبِ شہر نہیں
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ اور انسانیت کے بارے میں کچھ آراء ملاحظہ کیجئے:
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنے مضمون’’وہ کہ شاعر بھی ہے انسان بھی ہے‘‘میں لکھتے ہیں:
’’غمِ انسان کی اجتماعی آواز والی شاعری بڑے غوروفکر کی محتاج ہے۔ اہم سوال تو یہ ہے کہ غمِ انسان کا مسلک محض فکری چیز ہے، یا انسانی دُکھ کے گہرے تجربے سے اُبھرا ہے! مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ندیمؔ کے یہاں یہ رُوحانی تجربہ موجود ہے ۔‘‘
میں بظاہر ایک بھنور ہوں چیختے جذبات کا
لیکن اِک بھپرے ہوئے طوفان کا ساحل بھی ہوں
’’ندیمؔ‘‘
بھپرے ہوئے طوفان کا یہ ساحل کہاں ہے؟ یہ اس مقام پر ہے جہاں شاعر شکست کے گہرے احساس میں ڈوب کر پھر اُبھرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔ مجھے بتانا یہ تھا کہ ندیمؔ شاعر بھی ہے اور انسان بھی ہے اور انسان ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کے دل میں دوسرے دل کے لئے جگہ ہے، اس کا دل دوسرے کے لئے تڑپ سکتا ہے، انسان دوستی کے لئے یہی کافی ہے۔‘‘
فتح محمد ملک یوں تجزیہ کرتے ہیں کہ:
’’یہ اپنی تہذیب کے بنیادی اقدار پر اٹوٹ اعتماد اور انسان کی عظمت میں ناقابلِ شکست یقین ہی کا کرشمہ ہے کہ ندیمؔ عصرِ رواں کی فنی اور فکری تحریکوں کے منفی رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر ان سے اکتسابِ فیض کر پائے ہیں۔۔۔۔۔ ندیمؔ کے خیال میں محبت، انسان کا سب سے بڑا حسن اور سب سے بڑی عبادت ہے۔‘‘
جبکہ احمد ندیمؔ قاسمی کا کہنا ہے :
’’میرا نظریہ انسان دوستی کا ہے۔ اس میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ ہزار نظریئے بدل جائیں، ہزار عقیدے بدل جائیں، انسان دوستی اور انسانی محبت کا نظریہ اپنی جگہ قائم ہے۔۔۔۔۔ مساوات تو ہونی چاہیئے، انصاف تو ہونا چاہیئے۔ اگر یہ سب چیزیں ہمیں مل بھی جائیں تب بھی انسان تو موجود ہوں گے اور انسان کو دوستی کی کی ضرورت ہمیشہ ہو گی۔‘‘
ہارون الرشید، ندیمؔ صاحب کی یاد میں لکھتے ہیں کہ:
’’بابا محبتوں اور شفقتوں کے دیوتا تھے۔ وہ ہر ایک کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ اب اُن کا خیال رُلا رُلا دیتا ہے وہ نہایت حساس انسان تھے۔ جو دوسروں کے درد پر اتنا تڑپتا ہو، وہ اپنے ذاتی دُکھ کو کیسے سہتا ہو گا۔ سوچنے والی بات ہے۔ وہ خود ایک تہذیب تھے جو اب قریب قریب معدوم ہو چکی ہے سیلف میڈ انسان تھے ساری انسانیت کے لئے بلا مذہب و قوم درد رکھتے تھے۔ دُنیا میں جہاں بھی ظلم ہوتا، اس کے خلاف اپنے قلم سے بھر پور جنگ کرتے۔ اُن کی پوری شاعری میں انسانیت ایک طاقت وراستعارے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔‘‘
ندیمؔ کے دفتر کے ایک کارکن محمد امجد کا کہنا ہے:
’’یہ اُن کی عادت تھی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے کو ’’صاحب‘‘ کے لاحقے کے ساتھ بلاتے تھے۔ دراصل قاسمی صاحب ملازم کو سب سے پہلے انسان سمجھتے تھے اور’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ اُن کا فلسفہء حیات تھا اور یہی اُن کی زندگی کا اصل نچوڑ تھا وہ ملازم کی غلطی پر کبھی اُسے ڈانٹتے نہ تھے بلکہ بڑے پیار سے سمجھا دیتے تھے۔‘‘
طالبات سے ایک انٹرویو میں ندیمؔ صاحب خواتین کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
’’اگرچہ میں ایک بہت ہی قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں مگر میرے نزدیک عورتوں کو گھروں میں پابند رکھنے سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ ہماری چودہ کروڑ کی آبادی ہے، جس میں بڑا حصہ خواتین کا ہے۔ اس حصے کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔ اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ عورت اور مرد دونوں کے حقوق مساوی ہیں، اسی لئے میرے نزدیک پاکستانی عورت کو بھی اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہونا چایئے۔‘‘
جبکہ صائب الرائے نقاد محمد علی صدیقی لکھتے ہیں کہ:
’’قاسمی مادے پر ذہن کی فوقیت تسلیم کرتے ہیں۔ ماورائی طرزِفکر کے اصولاً مخالف نہیں اور مذہب کو خیر و برکت سے متصادم نہیں سمجھتے۔ اس لئے اُن کی شاعری میں سماجی عدم مساوات اور ہر نوع کی اخلاق باختگی کے خلاف ایک مسلسل پکار ملتی ہے جو انہیں ایک انسان دوست شاعر کے اعلیٰ منصب کی طرف لے جاتی ہے۔ قاسمی انسان کو تجرید و تجسیم دونوں صورتوں میں امکاناتِ خیر و برکت کا پتلا سمجھتے تھے۔ انسان اُن کے یہاں ایک جمالیاتی پیکرِ صوت و صورت و آہنگ بن کر اُبھرتا ہے۔ یہ رُخ بہت نیا اور انوکھا ہے لیکن قاسمی کی انسان دوستی کو یورپی اصطلاح “ہیومن اِزم” کی روشنی میں نہ دیکھا جائے۔ قاسمی کی انسان دوستی دراصل ترقی پسندی کا عاداعظم مشترک ہے۔‘‘
ندیمؔ افکار
احمد ندیمؔ قاسمی اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’جب میں جوان ہوا تو میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں جس ملک میں رہتا ہوں، اس پر ایک غیر ملکی سامراج کیوں مسلط ہے اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ میرے آس پاس انسانوں کی اکثریت اپنی ابتدائی ضرورتیں بھی پوری کیوں نہیں کر سکتی اور وہ زندگی کی ہر آسائش سے محروم کیوں ہے؟ بیشتر، انہی دو دکھوں نے میری شاعری اور نثر میں اظہار پایا۔ نہ میں نے برطانوی استعمار کو بخشا اور نہ ہی اپنی انسانی برادری کی محرومیوں کو نظر انداز کیا۔ ساتھ ساتھ میں نے انسانوں کی باہمی محبتوں اور ان محبتوں کی گو ناگوں کیفیتوں کے بھی گیت گائے کہ کوئی بڑے سے بڑا نظریہ بھی انہیں گزند پہچانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ میری ترقی پسندی نے بنیادی انسانی جذبات کی کبھی نفی نہیں کی کیونکہ یہ جذبے ہی تو انسان کو انسان بناتے ہیں۔
’’آزادی کے بعد بین الاقوامی دہشت گردی کے علاوہ خود اپنے بھائی بندوں کا ظلم و جبر میرا موضوعِ فن رہا۔ میں نے ویت نام، فلسطین اور دیگر عالمی مسائل پر نظمیں کہتے ہوئے، کشمیر کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ایک عالمی شخصیت بننے کی بجائے اپنے پاکستانی تشخص پر اکتفا کیا کہ پاکستان ہی میری پہچان ہے۔ پاکستان کی تاریخ بیشتر آمروں کی تاریخ ہے مگر کوئی بھی آمر مجھ سے اپنے حق میں ایک حرف بھی وصول نہ کر سکا۔ میں ان پر صاف اور غیر مبہم لفظوں میں بار بار واضح کرتا رہا کہ اہلِ قلم حکومتوں سے وفا داری کے عادی نہیں ہوتے بلکہ ہم تو صرف اپنے ملک اور اس میں رہنے بسنے والے کروڑوں افراد کے وفا دار ہوتے ہیں۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ تم اظہارِ آزادی کا لاکھ گلا گھونٹو، ہم اہلِ قلم براہ راست نہیں تو علامت یا استعارے کی زبان میں اپنا مافی الضمیر بہر صورت بیان کریں گے اور ہم اپنے ہم وطنوں کے بہتر مستقبل کی خاطر ہر صعوبت برداشت کریں گے۔‘‘
’’یہ بھی واضح کردوں کہ بعض ہم عصروں کی طرح میں نے انسانوں کو دوسرے درجے کی مخلوق کبھی نہیں سمجھا۔ میرے نزدیک تو انسان ہر مخلوق سے اشرف اور افضل ہے۔ اسی طرح میں نے انسان کے بہر صورت مرجانے کے دُکھ سے خوف زدہ ہو کر انسانی زندگی کو لا یعنی اور بے معنی کبھی قرار نہیں دیا کیونکہ میرے نقطہء نظر کے مطابق تو جہاں سے شاخ ٹوٹی ہے وہاں سے شاخ پھوٹی ہے اور یہ تسلسلِ حیات بنی نوع انسان کی فناء کی نفی کرتا ہے۔‘‘
’’آخر ہم اس زمین سے دور رہ کر صرف کارخانوں اور آمد وخرچ کے حسابوں اور مردم شماریوں وغیرہ میں کیوں کھو جائیں، زمین، ہوا اور خلا اور خلا سے پرے بے شمار دنیائیں اور ان دنیاؤں کی بے کنار خلائیں، یہ سب کچھ انسان کا ہے۔ ہم پرواز کرتے ہوئے بھی زمین سے کیوں وابستہ نہ رہیں یہی ربط و آہنگ ہماری انسانیت کا محافظ ہے۔‘‘
میرے ناقد، مرا موضوعِ سخن
یہی دنیا ہے، یہیں کی باتیں
’’ندیمؔ ‘‘
ندیمؔ نظریہ فن و نظریۂ حیات:
احمد ندیمؔ قاسمی اپنے نظریہ فن کے بارے میں بالغ نظری سے بتاتے ہیں کہ :
’’ممکن ہے فنکار کا، اپنے فن کی خصوصیات گنانا ایک حد تک اس کی خود اعتمادی کی دلیل بھی سمجھا جاتا ہو مجھے تو یہ کہتے ہوئے بھی تکلف ہوتا ہے کہ میں اہم ہوں۔ اگر میں اہم ہوں تو میرا نقاد اور میرا قاری آج نہیں تو کل اِس اہمیت کا احساس ضرور کر لے گا۔ اور اگر میں کچھ ایسا اہم نہیں ہوں تو خود اپنی طرف سے ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود بھی میں غیر اہم ہی رہوں گا۔ کوئی فنکا ر یہ کہنے سے رہا کہ مجھ میں فلاں خامی ہے فن کی دنیا میں حرفِ آخر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ فن حقیقت و صداقت کی تلاش کا نام ہے۔ یہ ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے جس میں انسانی ذہن ابد تک مصروف رہے گا۔
’’جب میں اپنی تخلیقات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے احساسِ ندامت نہیں ہوتا، احساسِ آسودگی ہوتا ہے اور میرا ضمیر خوش ہوتا ہے کہ میں نے اپنی تخلیقی قوت سے کوئی بددیانتی نہیں کی۔ میں نے اپنے ماضی سے کچھ لیا ہے تو اپنے مستقبل کو کچھ دیا بھی ہے اور انسانی فکرواحساس کے عظیم اور لامتناہی کارواں کے رستے پر سے میں نے بھی چند کانٹے ہٹائے ہیں اور چند کلیاں بچھائی ہیں۔‘‘
’’میں فنکار کو اُس معاشرے، اُس ملک اور اُس عصر کا ایک حصہّ سمجھتا ہوں جس میں وہ سانس لے رہا ہے۔ یوں فن کو ایک معاشرتی فعل قرار دیتا ہوں اور فن کار کی ذات اور اُس کی انفرادیت اور اُس کی اناء کا معترف ہونے کے باوجود میں اُس سے انسانیت دوستی کا مطالبہ بھی کرتا ہوں ۔‘‘
’’ جب میں تخلیقِ فن کو ایک سماجی فعل کہتا ہوں تو اِس سے میرا مقصد محض یہ ہے کہ فنکارکو اپنے اوپر چند ذمہ داریاں عائد کرنا پڑتی ہیں اور بس۔ جبکہ فنکار کے فکر و احساس کی حد بندی کی بجائے میں اس کا قائل ہوں کہ:
خدا نکردہ کسی قوم پہ یہ وقت آئے
کہ خواب دفن رہیں شاعروں کے سینوں میں
’’ندیمؔ‘‘
’’فن کا طرہ امتیاز ہی بے ساختگی ہے۔ یہ بے ساختگی اس سے چھن جائے تو فن تخلیق نہیں ہوتا، گھڑا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ میں تو فن کو، خاص طور پر فنِ شعر کو انسانی شعور کا قافلہ سالار سمجھتا ہوں اور قافلہ سالاروں کے قدموں میں بیڑیاں نہیں ہوتیں۔‘‘
’’پھر میں انسان اور اس کی زندگی کو فن کا بنیادی موضوع قرار دیتا ہوں۔ اگر انسان موجود ہے اور اس کرّے پر زندگی موجود ہے تو پھر سب کچھ موجود ہے۔ انسان اور خدا، ذات اور کائنات، حقیقت اور مابعد الطبیعات کے رشتوں اور مسئلوں پر بھی انسان اور زندگی کی ہی موجودگی میں غور ہو سکتا ہے۔ سو میری نظر میں انسان اہم ہے اور فن اسی صورت میں اہم ہے جب وہ انسان کو حسن و توازن حاصل کرنے میں مدد دے اور انسان کو منفی اندازمیں اُداس نہ کرے۔‘‘
’’فن کی صورت میں حیات آموزی ایک ایسا دشوار مرحلہ ہے کہ اگر فن کار کو اپنے فن پر پوری گرفت نہ ہو تو وہ منبر کے سب سے بلند پائے پر کھڑا ہو جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ وہ تو حسن کار ہے۔ اسے تو لفظوں سے چراغ جلانے ہیں اور پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنا ہے۔ فن کار کی اس سماجی آگاہی کا اظہار اس حسن و جمال اور اس بے نام سی ایک طلسماتی کیفیت کے ساتھ ہونا چاہیے کہ جس کے دم سے سینکڑوں تقریریں اور ہزاروں تلقینین شاعر کے صرف ایک شعر کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔‘‘
’’۔۔۔۔۔ میرے نزدیک فن، رائے کا اظہار نہیں ہے، جذبے کا اظہار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں میں فکر کو شاعری کی عظمت اور گہرائی کے لئے ناگزیر سمجھتا ہوں، وہیں اس فکری شاعری کی میرے دل میں کوئی قدر نہیں ہے، جس میں صرف علم ہو اور احساس جسے چھو کر بھی نہ گیا ہو۔ میں صرف اور محض فکر کی شاعری کو برداشت نہیں کر سکتا، فکرِ محض میں جو کرختگی اور درشتی ہوتی ہے اس کی میرے نظریہء فن میں کوئی گنجائش نہیں۔ مگر ساتھ ہی اگر فن فکر سے خالی ہو گا تو یکسر سطحی ہو گا۔ اس کا حسن مصنوعی پھولوں کا سا حسن ہو گا۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ بڑے فن، بڑی شاعری کے لئے خیال و احساس کی یکجائی ضروری ہے۔‘‘
’’۔۔۔۔۔ میرے نزدیک غم انسان کی ایک تخلیقی قدر ہے، کیونکہ اس غم سے ہی تو اُن حالات کو ختم کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جنہوں نے یہ غم بخشا ہے۔ پھر جب اُداس ہونا ہی پڑے گا تو اسے ایک تخلیقی قدر کیوں نہ بنا لیا جائے:
ہم نے ہرغم سے نکھاری ہیں تمہاری یادیں
ہم کوئی تم تھے کہ وابستہء غم ہو جاتے
ظلمت گہہ حالات کے ویران اُفق پر
جو چاند چمکتا ہی رہا، وہ میرا غم تھا
’’ندیمؔ‘‘
’’فن کار میں تخلیق کا اضطراب بے حد ضروری ہے فن کار کا محبوب، انسان ہے اور جب تک انسان مضطرب ہے اور بے قرار ہے فن کار کی آسودہ خاطری بددیانتی ہے۔ فنکار ارتقاء کا پرستار ہے اور ارتقاء کا عمل مسلسل جاری ہے۔ یہ خوب سے خوب تر اور خوب تر سے خوب ترین بلکہ اُس سے بھی آگے نکل جائے کا عمل ہے۔ اس لئے سچے فنکار کے دل میں تخلیق کی لگن بجھ نہیں سکتی۔ فن تخلیق کرنا تو اپنے اندر قیامت تک کے لئے الاؤ لگا لینے کا نام ہے اور جب تک دنیا میں ظلم ہے، بے انصافی ہے، بھونڈا پن ہے، عدم توازن، ریا کاری ہے، انسا ن کے بے ساختہ پن کی پامالی ہے۔ اس وقت تک سچے فن کار کا تخلیقی اضطراب ختم نہیں ہو سکتا۔ سو میں ذاتی طور پر اپنے قاری سے رابطہ کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں اور میرے قویٰ سلامت ہیں، میں اس سے بحثیت فن کار رخصت ہونے کی اجازت طلب نہیں کروں گا۔‘‘
’’یہا ں یہ بھی عرض کردوں کہ میں کسی بڑے پیغام کا شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، میں تو صرف ایک نقطۂ نظر کا شاعر ہوں اور یہ نقطۂ نظر صرف اتنا سا ہے کہ میں ایک خاص ملک اور ایک خاص ماحول کی پیداوار ہونے کے باوجود کسی انسان کو اجنبی نہیں سمجھتا۔ نقطۂ نظر کی اس عالمگیریت کے باوجود مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں کیونکہ مجھے اسی مٹی نے پیدا کیا اور انہی ہواؤں نے پالا ہے۔ میں امن و آشتی کا پرستار ہونے کے باوجود اس کے ناموس و تحفظ کے لئے لڑ بھی سکتا ہوں اور اس کی آن پر مر بھی سکتا ہوں‘‘
’’اشاریت کا حسن بے پناہ ہے لیکن ابہام اور اشاریت میں امتیاز کرنے کی بصیرت نہایت ضروری ہے۔‘‘
’’فن کی نوعیت کو میں بہت اونچی یا بہت گہری یا بہت دھندلی فلسفیانہ موشگافیوں میں لپیٹنے کا عادی نہیں ہوں۔ میرا نقطۂ نظر سیدھا، صاف اور واضح ہے۔ فن میرے نزدیک ایک معاشرتی فعل ہے۔ گُپھا میں بیٹھے ہوئے کسی بیراگی کی کراہ نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فن کو محض پند و نصائح کا ملغوبہ ہونا چاہئے۔ بنیادی طور پر فن اظہار حسن ہے، اظہارِ خیر اور اظہار صداقت ہے، رمز اس کا بے پناہ موثر ہتھیار ہے اور دلوں کی ظلمتوں میں خیر برکت کے اور انقلاب و ارتقاء کے چراغ جلائے جانا اس کا منصب ہے۔ اگر کوئی فن انسان اور زندگی کا اثبات نہیں کر سکتا تو وہ منفی فن ہے۔ یہ فن بھی خوبصورت ہو سکتا ہے۔ مگر بالکل اس طرح جیسے سانپ خوبصورت ہوتا ۔‘‘
یہ مسافت بھی تو فنکار کو طے کرنا ہے
کس کی محنت کا ثمر جا کے ٹپکتا ہے کہاں
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ سعی وکامیابی
شکست سے میرا اخلاق اجنبی ہے ندیمؔ
سحر ملے نہ ملے، رات سے نہ ہاروں گا
طوفان ہے اگر گھر کے در پے، یوں بیٹھ نہ جاؤ، کچھ تو کرو
کھڑکی کے شکستہ شیشے پر کاغذ ہی لگاؤ، کچھ تو کرو
’’ ندیمؔ‘‘
اکبر حمیدی اپنا مشاہدہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’ندیمؔ کی پوری زندگی، اُن کے ادبی کام، اُن کی شخصیت کی فتوحات اور مقبولیت پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں کے نچلے متوسط طبقے کے ایک فرد نے بغیر کسی پروموٹر کے محض اپنے بڑے ادبی کام اور نہایت درجہ پُرکشش شخصیت سے ایک دُنیا کو فتح کرڈالا۔ کبھی ندیمؔ صاحب تنہا تھے اور آج پورا عہد اُن کے ہم رکاب ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے۔‘‘
جمیل یوسف لکھتے ہیں:
’’ندیمؔ صاحب کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مقدر کی جگہ قرطاس و قلم اُٹھا لائے اور انہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ قرطاس و قلم سے اپنی وفاداری اس استواری سے نبھائی کہ انعام کے طور پر زندگی کے سارے ثمرات و اعزازات پائے۔‘‘
ندیمؔ کا ایک شعر :
اہلِ ثروت پہ خدا نے مجھے سبقت دے دی
اُس کی رحمت نے قلم کی مجھے دولت دے دی
ڈاکٹر سید عبداللہ، ندیمؔ صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کرتے ہیں:
’’ندیمؔ کے کلام کو پڑھ کر عموماً میرے خیال میں اُس شاعر کی تصویر اُبھرتی ہے، مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک شخص کو دیکھ رہا ہوں۔ سیپیاں چننے والا، فکر مند، مگر متبسم جگنوؤں سے کھیلنے والا، چاند تارے سے ہم کلام ہو کر اندھیروں کو بھگانے والا، سحرِ آفتاب اور دن کا جوئیندہ، ندیوں کے کنارے پھرنے والا مگر شہروں کی زندگی کے مسئلوں سے پھر بھی غافل نہیں۔‘‘
صبح کو راہ دکھانے کے لئے
دستِ گل میں ہے دیا شبنم کا
’’ندیمؔ ‘‘
شبنم کا چراغ ہاتھ میں لئے ہوئے یہ شخص شہر اور کوہسار میں گھوم جاتا ہے اور بام و در سے یہ آواز سنائی دیتی ہے:
دوستو قریب آجاؤ
آکے دیکھو تو سہی
ایک حلقے میں بجھی آنکھوں کو
لا کے دیکھو تو سہی
شاید آواز پہ آواز آئے
گا کے دیکھو تو سہی
’’ ندیمؔ‘‘
غرض یہ سیپیاں چننے والا ’’گا کے دیکھو تو سہی‘‘ کی دعوت دیتے ہوئے خود بھی گاتا ہے اور اپنے زمانے کو بھی اس عمل پہ اُبھارتا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں اکبر حمیدی اپنے ایک اہم مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ:
’’ندیمؔ صاحب ان دو تین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے دامن تر کئے بغیر’’قعرِ دریا ‘‘ کا سامنا کیا اور ساحل تک پہنچے۔ ندیمؔ صاحب نے جہاں فکرونظر کے اعتبار سے شاعری میں اور فکشن میں بڑا کام کیا، وہاں زندگی کی باریکیوں کو بھی سمجھا اور اس بے درد اندھی مشین کی لپیٹ میں آنے سے ہمیشہ خود کو بچائے رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس میں اُن کی سماجی ذہانت کو بھی دخل ہے اور ان کی اعلی ظرفی کو بھی۔ اس میں بے حد تحمل، برداشت، جدوجہد کا جذبہ، روشن خیالی، مثبت اندازِ فکر اور انتظار کرنے جیسی خوبیاں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔‘‘
’’ایک بات ندیمؔ صاحب کی شخصیت میں بے حد اہم اور کار گر ہے۔ وہ ہے زندگی کے کار زار میں اپنی جنگ آپ لڑنا۔ دادِ شجاعت دینا، دوسروں کا انتظار نہ کرنا کہ وہ آئیں اور اُن کی حفاظت کریں۔ یہ خوبی آج بھی ان میں بدرجہ اتم موجود ہے کہ جب بھی کسی نے اُن پر حملہ کیا، اُنہوں نے خود اس کی مدافعت کی اور نہایت باوقار انداز میں کی۔ اپنے منصب سے کبھی نیچے نہیں اُترے۔ اپنی اخلاقیات کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔‘‘
’’انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری رہے تو مخالفین کی مخالفت کا دلیری سے سامناکیا۔ مقدمے بھی بھگتے، جیل بھی گئے، الزامات بھی برداشت کئے مگر اس مرکزی عہدے کے فرائض پوری قوت اور دیانت داری سے ادا کئے۔ کوئی اہم اور مشکل ذمہ داری قبول کرنے سے کبھی پہلو تہی نہیں کی۔ تحریکوں میں شامل ہو کر حوادثِ روزگار کا سامنا ندیمؔ جیسے لوگ ہی کرسکتے تھے۔‘‘
میں ندیمؔ قریہء سیم وزر سے بھی سرکشیدہ گزر گیا
جو مری اناء کا غرور ہے، مری عمر بھر کی کمائی ہے
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ جرأت و حق گوئی
اتنی خاموش ہے شب، لوگ ڈرے جاتے ہیں
اور میں سوچتا ہوں کہ کس نے بُلایا ہے مجھے
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ کی جرأت مندی اور صداقت شعاری نے بھی اُن کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ عملی زندگی ہو یا فنی زندگی، ندیمؔ نے ہمیشہ بہادری کا ثبوت دیا اور نہ صرف حق کی حمایت کی بلکہ خود بھی سچائیاں اپنائیں۔ بالخصوص اپنے کالموں میں بلا خوف و خطر اور بغیر کسی طرح کی مصلحت کے سچ ہی لکھا۔ یہ احمد ندیمؔ قاسمی ہی تھے جنہوں نے وزیر اعظم، صدرِ مملکت اور دیگر اہم عہدے داروں سے براہِ راست مخاطب ہو کر سیدھے صاف انداز میں اپنی بات کہنے کا آغاز کیا اور آخری کالم تک اسی جرات اور صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
عطاالحق قاسمی، ندیمؔ صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ندیمؔ وہ بلند وبالا مینار ہے جہاں سے محبت کی اذان بلند ہوتی ہے اور دُکھی دلوں میں اُترتی جاتی ہے۔ لیکن میں نے تو ندیمؔ صاحب کو کئی مواقع پر محبت چھوڑ مروت سے بھی دست بردار ہوتے دیکھا ہے۔ مثلاً گزشتہ دنوں ادیبوں کا ایک وفد ’’روس یاترا‘‘ کے لئے ترتیب دیا گیا۔ جس کے لیڈر قومی حلقوں میں خاصے متنازعہ ہیں۔ ندیمؔ صاحب کو بھی اس وفد میں شمولیت کی دعوت دی گئی مگر ندیمؔ صاحب نے انکار کر دیا، وجہ اس کی اُنہوں نے یہ بیان کی کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے مجھے ان کے نظریات سے اختلاف ہے۔ چنانچہ وفد کے سربراہ کی حیثیت سے وہ روس میں جو کچھ کہیں گے، اگر میں وہاں اس کی تردید کرتا ہوں تو یہ ضوابط کی خلاف ورزی ہو گی اور اگر میں خاموش رہوں تو اپنے نظریات کے ساتھ غداری کروں گا۔ ندیمؔ صاحب کی اس ’’حرکت ‘‘ پر میں خاصا حیران ہوا تھا، لیکن ندیمؔ صاحب ایسی ترغیبات سے ایک دفعہ نہیں بے شمار دفعہ گزرے۔ ایسے مواقع پر اُنہوں نے محبت سے لاتعلقی کر کے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔‘‘
وحید الحسن ہاشمی کہتے ہیں:
’’(احمد ندیمؔ قاسمی صاحب) گفتگو میں نرم گو،عمل میں پُرعزم تھے۔ اُنہوں نے جیلیں کاٹیں مگر کوئی اُن کے ضمیر کی طاقت کو نہ زیر کر سکا، نہ خرید سکا۔‘‘
اپنے ایک انٹر ویو میں ندیمؔ بتاتے ہیں کہ:
’’میں نے ماہنامہ ’’ہیرلڈ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ان جابروں کے حق میں لکھی ہوئی ایک سطر، میرا ایک لفظ ہی دکھا دیجئے۔ میں نے ضیاء الحق کے دورِ اقتدار ہی میں اس ماہنامے کو بتایا تھا کہ ضیاء الحق صاحب کا ریفرنڈم اعلی پیمانے کے ایک فراڈ کے سوا کچھ نہ تھا اور جو نوّے دنوں کے لئے آئے تھے انہیں نوّے مہینوں سے بھی زیادہ مدت گزر چکی ہے۔ کیا کسی اور’’مہا ترقی پسند‘‘ کو یہ کہنے کی توفیق ہوئی؟‘‘
’’میں 1953 سے 1959ء تک روزنامہ ’’امروز‘‘ کا مدیر رہا۔ اس دوران میں ایوب خان نے حکومت سنبھالی اور مارشل لاء لگ گیا۔ مجھے محکمہء اطلاعات کی جانب سے ایک مضمون ملا۔ اس کا عنوان تھا ’’کیا یہ مارشل لاء ہے؟‘‘ مطلب یہ تھا کہ یہ تو نعمتِ خداوندی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں یہ مضمون نہیں چھاپ سکتا۔ اس پر مجھے اوپر سے پیغام ملا، ’’ہم اپنے آدمی بھیج دیں؟‘‘ میں نے کہا:’’جناب بھیج دیجئے ۔‘‘ چنانچہ ادھر ایک آدمی مضمون واپس لے کر گیا اور اُدھر دوسرا آدمی میرے وارنٹ گرفتاری لے آیا اور مجھے پکڑ کر اندر کر دیا گیا۔ رہائی کے کچھ روز بعد میں نے دوبارہ ’’امروز‘‘ کی ادارت سنبھال لی۔ یہ مارچ 1959ء کی بات ہے۔ جب صبح کو مجھے گھر پر ٹیلی فون ملا کہ پولیس اور فوج نے پروگریسو پیپر لمیٹڈ پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں نے وہاں کے ایڈمنسٹریٹر سے کہہ دیا کہ ’’میں یہاں پر کام نہیں کروں گا۔‘‘ اُنہوں نے کہا:’’اس صورت میں آپ کو پکڑ لیا جائے گا۔‘‘ میں نے کہا:’’جناب یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میں جو آزادی سے اخبار کے اداریئے لکھتا رہا ہوں، اب پولیس والے آکر مجھے ڈکٹیشن دیں گے کہ یہ لکھو وہ نہ لکھو۔ یہ تو مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔‘‘
اہلِ قلم کانفرنسوں میں احمد ندیمؔ قاسمی کے دو کلیدی خطبوں کو ادب کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں جابر آمر کے دورِ حکومت میں نہایت جرأت کے ساتھ حقائق کو بیان کیا گیا ہے۔ ندیمؔ صاحب بتاتے ہیں کہ:
’’1980ء میں جو کانفرس منعقد ہوئی اس میں مجھے کلیدی خطبہ پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ اس کا موضوع ’’ادیب اور مملکت‘‘ تھا۔ میں نے حق بات کے اعلان کے لئے یہ موقع غنیمت جانا۔ میرے کلیدی خطبے میں مارشل لاء حکومت کی غیر مشروط اور صد فی صد نفی کی گئی تھی۔ اس اجلاس کی صدارت مارشل لاء حکومت کے وزیرِ تعلیم نے کی تھی۔ میں خطبہ پڑھ رہا تھا تو اکادمی کے اُس وقت کے ڈائریکٹر صاحب نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ شخص حکومت کو کھری کھری سُنا رہا ہے تو اُنہوں نے مجھے ٹوکا اور کہا کہ اپنے خطبے کا خلاصہ پڑھیئے۔ میں نے عرض کیا میرا خطبہ ہے ہی مختصر اور اس لئے آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیئے۔‘‘
’’پانچ برس بعد 1985ء میں ایک اور اہلِ قلم کانفرنس اسلام آباد ہی میں منعقد ہوئی۔ یاد رہے کہ وہ زمانہ بھی مارشل لاء ہی کا تھا۔ اس میں بھی مجھے کلیدی خطبہ پڑھنا تھا، سو میں نے پڑھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ایک عجیب سا حادثہ ہوگیا۔ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے میرا یہ مختصر ساخطبہ اکادمی ادبیات کے اس وقت کے چیئرمین کی وساطت سے صدر صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا چنانچہ اُنہوں نے غصے سے بھرا ہوا اپنا ردعمل اپنی افتتاحی تقریر میں ارشاد کر دیا اور ان اہلِ قلم کی ایسی تیسی کردی جو ملکی حالات و واقعات پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ چونکہ میں نے اپنا خطبہ صدر صاحب کی تقریر کے بعد پڑھا تو دوستوں نے یہ سمجھا کہ میں ان کی تقریر کا جواب دے رہا ہوں جبکہ وہ تو مجھے میرے خطبے کا نہایت ناگوار جواب پہلے ہی دے گئے تھے۔‘‘
صرف فکری اور نظریاتی سطح پر ہی نہیں عام زندگی کے بارے میں بھی ندیمؔ صاحب کے رویئے جرأت مندانہ تھے۔ اکبر حمیدی درست کہتے ہیں کہ:
’’ندیمؔ صاحب نے بعض معاملات اپنے زمانے کی اخلاقی قدروں سے اتنے بلند اور مختلف اختیار کئے کہ لوگ انہیں تسلیم کرنے سے ہی منکر ہو گئے۔ آج کے زمانے میں یہ باتیں ہماری اخلاقیات سے اتنی بالا ہیں کہ ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ کوئی شخص اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
ندیمؔ کی شاعری بھی اظہارِ جرأت کا خوب صورت اور جری نمونہ ہے۔ دو مثالیں دیکھیے۔ ایک تو اُس غزل کا شعر جو اپنے وقت کے وزیرِ اطلاعات مولانا کوثر نیازی کی صدارت میں (جبکہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی) منعقدہ مشاعرے میں ندیمؔ نے پڑھی:
میں نے بھیجا تجھے ایوانِ حکومت میں، مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہوسکتا
اور دوسری مثال کے لئے ندیمؔ کی بہت مشہور نظم ’’پابندی‘‘ ملاحظہ کیجئے:
میرے آقا کو گلہ ہے
مری حق گوئی راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں
تیری سیاست فن میں زہر کیوں گھولتی ہے
میں وہ موتی نہ بنوں گا
جسے ساحل کی ہوا رات دن رولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ طوفان کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر،
بوند بھی بولتی ہے
ندیمؔ رجائیت
ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ہے کہ:
’’وہ عمر بھر زندگی کے محاذ پر حالتِ جنگ میں رہے اور بڑی بات یہ ہے کہ وہ کبھی مایوس نہ ہوئے۔ اس معاملے میں وہ پکے رجائی تھے۔ قنوطیت انہیں چھو کر بھی نہ گزری تھی۔‘‘
ندیمؔ صاحب کلبیت، قنوطیت اور منفیت کے خلاف تھے۔ اپنے ایک مضمون میں اس کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔ کلبیت کی حیثیت منفی اور تخریبی ہے۔ کسی ادیب کے رویئے میں کلبیت اس کی شخصیت میں کسی کمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ قطعی ضروری نہیں کہ اس کی کمی کا کوئی وجود بھی ہو، جب ادیب اپنے متعلق کسی شبے میں مبتلا ہو جائے تو پورے معاشرے اور قومی زندگی کے دوسرے شعبوں، حتی کہ انسان اور انسانیت تک پر اُسے شبہ ہونے لگتا ہے، شخصیت میں کمی پورے نظامِ زندگی میں کمی کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور ادیب اپنی اصلاح کرنے کے بجائے ساری دُنیا سے انتقام لینے پر اُتر آتا ہے۔ اس کے پاؤ ں میں کانٹا چبھ جائے تو سطح ارض کی روئیدگی اور دھرتی کی قوتِ نمو کو گالیاں دیتا ہے، اس کی آنکھ میں مٹی کا ایک ذرہ پڑ جائے تو وہ عناصر کو تُوم ڈالتا ہے۔‘‘
الطاف حسین قریشی کا کہنا ہے کہ:
’’اُن کا سب سے بڑا وصف یہی تھا کہ وہ ہمیشہ پر اُمید رہے اور اُن کی موجودگی میں نا اُمیدی کے تمام سائے تحلیل ہو جاتے تھے۔‘‘
اور قیصر تمکین کے مطابق:
’’(قاسمی صاحب ہمیشہ) لطافت اور توازن کا خیال رکھتے۔ ایسے حضرات تو تقریباً عنقا ہیں، جو ادب و فن کی خدمت کے ساتھ ہی دوسری گھریلو اور سماجی ذمہ داریاں بھی بحسن و خوبی نبھا سکیں۔ حال یہاں بھی قاسمی صاحب کا ایک انفرادیت سے مملو ہے۔ پھر قاسمی صاحب طرح طرح کی ترغیبات کے باوجود اپنے منصب و مؤقف پر استقلال و استحکام سے جمے رہے۔‘‘
جبکہ نفیسہ حیات قاسمی یہ گواہی دیتی ہیں:
’’احمد ندیمؔ قاسمی صاحب سے میرا تعلق صرف شاعر اور مداح کا نہیں بلکہ نانا اور نواسی کا بھی ہے۔ قریبی تعلق کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ ندیمؔ کے فن اور شخصیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ پھر اُن کے جس پہلو نے مجھے بے حد متاثر کیا، وہ ان کے پُرامید رہنے اور مثبت سوچ اپنائے رہنے کی عادت اور صلاحیت ہے اور اس کا شاندار اظہار اُن کی شاعری میں بھی موجود ہے۔
’’سچ تو یہ ہے کہ میں نے امید اور جستجو کے اصل معنی احمد ندیمؔ قاسمی کی حیات اور اُن کے فن سے سمجھے اور سیکھے ہیں۔ زندگی کے ان گنت کٹھن مرحلے اُنہوں نے جس وقار اور حوصلے سے طے کئے ہیں وہ میرے لئے ایک بہترین مثال اور قابلِ قدر سبق ہیں۔ اُن کا، اور اب میرا بھی یہ ماننا ہے کہ امید مثبت سوچ ہے اور اس کے نتیجے میں جستجو مثبت عمل ہے۔ مثبت سوچ کا نتیجہ منفی نہیں ہو سکتا۔ البتہ کبھی مشکلات در پیش ہوئیں تو امید کا سہارا ہو گا۔ اگر اچھا دور ختم ہو سکتا ہے تو بُرا دور بھی تو فانی ہے۔ اس لئے اُمید اور جستجو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیئے تاکہ اچھا دور جلد سے جلد آسکے۔‘‘
ندیمؔ وطنیت
احمد ندیمؔ قاسمی کو ’’شاعرِ انسانیت‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’شاعر پاکستان‘‘ اور ’’شاعرِ وطن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ندیمؔ کی تمام تحریریں اور تخلیقات، شاعری، افسانہ، مضامین اور کالم اُن کی انسان دوستی کے ساتھ ساتھ اُن کی انتہائی پُر خلوص حُب الوطنی کا بھی متاثر کن اظہار ہیں۔ ندیمؔ کی نمایاں ترین صفت وہ سچی تڑپ ہے جو دل سے اُبھر کر دلوں میں اُتر جاتی ہے اور جو وطن کی بات کرتے وقت اپنی تاثیر کی شدتوں پر ہوتی ہے۔ جیسا کہ اُنہوں نے بتا رکھا ہے کہ:
’’اپنے نقطہء نظر کی عالمگیریت کے باوجود مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں کیونکہ مجھے اسی مٹی نے پیدا کیا اور انہی ہواؤں نے پالا ہے۔ پھر میں جس حُسن و توازن کا پجاری ہوں۔ اس کا تصور مجھے یہیں سے ملا ہے۔ اس لئے مجھ پر اس سر زمین کے خاص حقوق ہیں اور میں امن و آشتی کا پرستار ہونے کے باوجود اس کے ناموس اور تخفظ کے لئے لڑ بھی سکتا ہوں اور اس کی آن پربھی مر سکتا ہوں۔ حد سے بڑھی ہوئی عالمگیریت والے مجھ پر تنگ خیالی کا الزام بھی دھر سکتے ہیں مگر میں اس ماں کو کیسے بھولوں جس نے مجھے جنم دیا اور جس کے قدموں میں میری جنت ہے۔‘‘
ناہید قاسمی نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے:
’’میرے شاعر، میرے ندیمؔ !
جشنِ آزادی کی شب کو
تیری کتاب کا دِیا اُٹھائے
میں ماضی کی دُھندلی وادی میں جا اُتری
اور پھر چونک اُٹھی
(آج سے پہلے یہ سب میں نے اتنا نمایاں کیوں نہیں دیکھا!)
ہر ایک مصرع میرے وطن پر بیتے لمحوں کا سچا اظہار لئے تھا
(نظم ۔ دشتِ وفا کی پکار)‘‘
1931ء سے 2006ء تک شاعری، افسانوں، کالموں اور مضامین میں مثالوں کا طویل سلسلہ ہے، اگر ثبوت کے لئے صرف اُن کی شاعری ہی کا جائزہ لیں تو اس میں سے یہ نظمیں:’’درد وطن‘‘، ’’اے ارضِ وطن میں روتا ہوں‘‘ اور’’وطن کے لئے ایک دُعا‘‘ ہی پڑھئے۔ خاص طور پر آخرالذکر نظم آپ کو ندیمؔ کے خلوص، لگن اور تڑپ کی واضح پہچان کروائے گی:
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کِھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے، وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
’’ندیمؔ ‘‘
ڈاکٹر جمیل جالبی، ندیمؔ کے پر خلوص و باشعور جذبہء حُب الوطنی کے بارے میں رائے دیتے ہیں کہ:
’’جس جرأت، حوصلہ مندی اور بے باکی سے احمد ندیمؔ قاسمی نے 6 ستمبر1965ء کی جنگ کے بارے میں مضامین لکھے، کسی اور ادیب اور دانش ور کے قلم سے نہیں نکلے اور یہ فی الحقیقت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس وقت اکثر ادیب و دانش ور تذبذب اور عدم فیصلہ کا شکار تھے لیکن قاسمی صاحب ہی کی وہ آواز تھی جس نے سب کو تذبذب کے دلدل سے نکال کر پاکستانی ہونا سکھایا تھا۔ یہ مضامین اُن کی کتاب ’’تہذیب و فن‘‘ میں آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے مضامین پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ اس مسئلے پر ان کا ذہن کس قدرصاف و شفاف ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی تھی کہ ترقی پسندی اور محبِ وطن پاکستانی ہونے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔‘‘
فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ:
’’یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ندیمؔ خود پاکستان ہو، اُس کی بقا و خوشحالی و آزادی و خود مختاری ندیمؔ کی ذاتی بقا اور اپنے جذباتی استحکام ہی کا دوسرا نام ہو۔ جیسے ندیمؔ خود پاکستان ہو اور اس کے اندر اپنی بنیادوں کو پگھلنے سے بچانے کی جنگ برپا ہو۔‘‘
الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں:
’’جناب احمد ندیمؔ قاسمی اپنی ذہنی ساخت اور نفسیات کے مطابق ایک باغی انسان تھے۔ ہر طرح کے جبر و استحصال سے شدید نفرت اور اس سے ٹکرا جانے کی ایک زبردست قوتِ ارادی ان کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے تھی۔ وہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے اور معاشرے کی تعمیر، عدل و مساوات کے اُصولوں پر کرنا چاہتے تھے۔ یہی جذبہ انہیں ترقی پسند مصنفین کے حلقے میں لے آیا تھا ۔۔۔۔۔‘‘
’’بیشتر اشتراکی ادیبوں اور شاعروں کے مزاج سے ہٹ کر جناب احمد ندیمؔ قاسمی نے وطن کی محبت کے نغمے الاپے ہیں اور اپنی سر زمین کو وطنِ پاک سے موسوم کر کے ( ’’وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے ہو تم) وہ اپنے اہلِ وطن کے لئے ایک ایسی فصلِ گل کے لئے دُعا مانگتے ہیں، جسے اندیشہء زوال نہ ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ احمد ندیمؔ قاسمی پاکستان کے خلاف نجی محفلوں میں بھی کوئی بات سننے کی تاب نہیں لاتے تھے۔ معاشرتی ناہمواریوں کے بارے میں ان کا قلم تیغ کی مانند چلتا تھا، لیکن ریاست کا وجود اور اس کا ستحکام انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔‘‘
پشاورسے محسن احسان بتاتے ہیں کہ:
’’14 اگست 1947ء کی رات بارہ بجے ریڈیو سے اعلان ہوا:’’یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، پشاور ہے۔ اب آپ جشنِ آزادی کے سلسلے میں احمد ندیمؔ قاسمی کا لکھا ہوا ترانہ سنیں گے ’’پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو‘‘ یہ ہے وہ پہلا قومی نغمہ جو اس رات نشر ہوا۔‘‘
اس رات ندیمؔ کے تین نغمے نشر ہوئے جنہیں سجاد سرور نیازی نے اپنی مو سیقی اور اپنی آواز میں پیش کیا۔ عطا الحق قاسمی نے تحریر کیا ہے کہ:
’’پاکستان اور اس کی عوام سے باندھے ہوئے عہدِ وفا پر وہ آخری سانس تک قائم رہے۔ انہیں بائیں بازو کے ان عناصر سے ہمیشہ شکایت رہی جو پاکستان کی بنیادوں میں کیڑے نکالتے تھے یا اسلام کا مذاق اُڑاتے تھے۔ اسی طرح دائیں بازو کے ان لوگوں کے ساتھ بھی ان کی کبھی نہ بنی جو جاگیرداری، سرمایہ داری اور دوسرے ظالم طبقوں کو اسلا م کے نام پر تحفظ دیتے رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے کہا کہ:
’’پاکستان اور پاکستان سے باہر وہ پاکستانی ادب کا ایک بہت بڑا حوالہ تھے۔‘‘
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے تحریر کیا ہے کہ:
’’احمد ندیمؔ قاسمی کے شعر میں تاثیر کا جادو اس لئے جاگا کہ اس کے اندر دردِ انسانیت جاگ رہا تھا۔ اس میں اپنی دھرتی کی مٹی کی بو باس تھی۔ اس میں غربائے وطن کے پسینوں کی مہک تھی۔ قاسمی صاحب نے کل عالم کے انسانوں کے لئے لکھا، مگر سب سے زیادہ اپنی دھرتی کے باسیوں کا درد اپنی رگ وپے میں محسوس کیا۔ قاسمی صاحب کو اپنی پاکستانیت پر ناز ہے۔ ان کی انسان دوستی میں وطن دوستی کی مٹھاس گندھی ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ قاسمی صاحب میکرو لیول کی سوچ رکھتے ہیں۔‘‘
جبکہ لاہور سے ہارون الرشید نے اپنے کالم میں لکھا کہ:
’’اُنہوں نے اس مظلوم قوم کے مجروح وطن کے ساتھ عمر بھر محبت کی اور کبھی اس کے بد باطن دشمنوں کے دریوزہ گر نہ ہوئے۔ وہ سویت یونین، امریکہ اور بھارت کی دہلیز پر کبھی سجدہ ریز نہ ہوئے۔ سجدہ ریز کیا، مرعوب تک نہیں ہوئے۔ احمد ندیمؔ قاسمی ایک پاکستانی تھے، تحریکِ پاکستان کے ایک کارکن، ملک دشمنوں کے رفیق وہ کیسے ہوتے۔‘‘
مقصود الہی شیخ لکھتے ہیں :
’’احمد ندیمؔ قاسمی کی دانش اور ان کے افکار ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ سچے محبِ وطن تھے، پاکستانی اعزازات ان کے لئے سچا اعزاز تھے۔ اس لئے پوری اُردو دُنیا میں احترام کی نظرسے دیکھے جاتے تھے۔‘‘
ندیمؔ اور تحریکِ پاکستان
احمد ندیمؔ قاسمی نے تحریکِ پاکستان میں عملی حصہ بھی لیا۔ اس کی کچھ تفصیل ندیم کے برادر بزرگ بتاتے ہیں کہ:
’’قائداعظم کی رہنمائی میں تحریکِ پاکستان زوروں پر تھی۔ شاہ (ندیمؔ ) جس نے انسان دوستی اسلام دوستی کے رستے سے حاصل کی ہے، اس تحریک کے نظریات سے متفق تھا۔ اسے اختلاف تھا تو یہ کہ اس کی صوبائی قیادت صد فی صد امراء کے ہاتھ میں تھی مگر وہ ایک بڑے مقصد کے لئے اس اختلاف کو پی جانے پر تیار ہو گیا۔ مسلم لیگ کا سبز جھنڈا کاندھے پر رکھا اور اپنے گاؤں کے نوجوانوں کا جلوس لئے علاقہ سون سکسیر کے گاؤں گاؤں میں گھومنے لگا اور یوں وہ ضلع سرگودھا کے اس کوہستانی علاقے میں ایک ’’خطرناک‘‘ مہم کا لیڈر بن گیا۔ ’’خطر ناک ‘‘ اس لئے کہ اس وقت یونینسٹ وزارت برسرِ اقتدار تھی اور یہ علاقہ اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ ملک خضر حیات خان کا حلقہء انتخاب تھا۔ یونینسٹ وزارت اس بات پر تُل گئی تھی کہ چاہے کتنے ہی بے گناہوں کو جیل میں ٹھونس دینا پڑے، وہ یونینسٹ اُمید واروں کے مقابلے میں کسی مسلم لیگی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارا علاقہ تو ویسے ہی پسماندہ اور راضی برضا قسم کا علاقہ تھا۔ یہاں تو پولیس والے ہر اس شخص کو حوالات میں بند کر نے پر تیار رہتے تھے، جو مسلم لیگ، قائداعظم اور پاکستان کا نام بھی لیتا تھا۔ لیکن شاہ کو نہ تو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی ہر طرف سے اُٹھتی ہوئی جھنکار خوف زدہ کر سکی اور نہ اپنے خاندان کے بزرگوں کی شدید ناراضگی اس کے قدموں کو جکڑ سکی۔ وہ بے دھڑک اس میدان میں کودا۔ اب اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس دوران اس نے نہ صرف جلوس نکالے اور جلسے کئے بلکہ ان گنت نظمیں لکھیں اور ترانے کہے اور اپنے علاقے کی بولی میں ٹپے تصنیف کئے۔ لوک گیت کی غیر فانی صنف ’’ماہیا‘‘ تک کو اس نے تحریکِ پاکستان کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کے لئے استعمال کیا۔ حد یہ ہے کہ اُن دنوں ہمارے ہاں شادی بیاہ کے موقع پر عشقیہ گیتوں کی بجائے شاہ کے یہی ٹپے اور ماہیئے گائے جانے لگے۔ وہ جو بچپن میں گانے والی لڑکیوں میں گھس کے بیٹھ جاتا تھا اور انہیں گیتوں کے نئے نئے بولوں (’’کلیوں‘‘) کے لقمے دیتا تھا، آج اپنے فن کو قیامِ پاکستان اور آزادیء وطن کے لئے موثر طور پر استعمال کر رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے لاہور کے اخباروں کو اس علاقے کی سر گرمیوں سے باقاعدہ طور پر آگاہ رکھنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ یوں سمجھئے کہ یہ اس کی صحافت کا آغاز تھا۔‘‘
اجمل دانش لکھتے ہیں :
’’جناب احمد ندیمؔ قاسمی جس طرح نثر و شعر میں یکتا تھے اسی طرح نہایت بے بدل اورجرأت مند صحافی بھی تھے اور عملی سیاسی کارکن بھی۔ قیامِ پاکستان سے قبل اوربعد میں بھی محدود عرصے تک اُنہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل وہ اپنے آبائی علاقے سے مسلم لیگی اُمیدواروں کو جتوانے کے لئے جد وجہد بڑے اعلیٰ انداز میں ترتیب دیا کرتے تھے۔ مدِمقابل اُمیدوار بااثر انگریز نواز جاگیردار تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب اُنہوں نے قائداعظم کی جیب کے کھوٹے سکوں کی جھنکار سُنی تو عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور اپنے زبان و قلم کو ذریعہ اظہار بنا کر مختلف موقر جرائد میں کالم نگاری کے ذریعے ملک کے بالا دست طبقوں کے (ظلم و استحصال) کے خلاف جد وجہد میں مصروف ہو گئے۔‘‘
فکر تونسوی نے لکھا تھا کہ:
’’اپنے گاؤں انگہ میں آزادی کی تحریک کی سال بھر تک تنظیم کرتا رہا اور رجعت پسند طبقہ کے خلاف ایک طوفانِ عظیم کھڑا کئے رکھا۔۔۔۔۔ اس کے ضلع سرگودھا کے دیہاتی عوام خضر حیات ٹوانہ اور احمد ندیمؔ قاسمی کے سوا شاید کسی اور کو نہیں جانتے تھے۔ وہاں کے لوگ احمد ندیمؔ قاسمی کی نظمیں، مجلسوں اورمحفلوں میں گا گا کر پڑھتے ہیں اور اس بات پر جھوم جھوم جاتے ہیں کہ یہ گیت اُن کے احمد شاہ (ندیمؔ ) نے لکھے ہیں۔‘‘
ندیمؔ ترقی پسندی
باشعور، حساس، سچے اور مستقل مزاج احمد ندیمؔ قاسمی ترقی پسندی سے اپنی دلچسپی اور وابستگی کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں:
’’-351934ء میں امیر گھرانوں کے چند نوجوانواں نے، جو انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انگریز کے استعمار، جرمنی اور اٹلی کے فاشزم، خود اپنے وطن میں ملائیت کی گرفت کی اور بڑے بڑے زمین داروں، وڈیروں، خانوں، پیروں، تمن داروں کے ہاتھوں کروڑوں عوام کے اندھا دھند استحصال کے خلاف ثقافتی محاذ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1936ء میں اسی جذبے کے تحت پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن (انجمن ترقی پسند مصنفین) کا قیام عمل میں آیا جس کے ہمدردوں میں ٹیگور، منشی پریم چند اور مولوی عبدالحق کی سی شخصیات بھی شامل تھیں۔ مگر اس سے بہت پہلے ہی سے، میں، غیر ملکی استعمار کی غلامی اور انسان کے ہاتھوں انسانوں کے استحصال سے شدید نفرت کرنے لگا تھا۔ انجمن کا کارکن بننے سے پہلے میں نے اپنے مجموعہء کلام ’’جلال وجمال ‘‘ کا جو طویل دیباچہ لکھا ہے (1946ء میں)، وہ اس حقیقت کی شہادت دے گا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بڑے زمین داروں کے مظالم، ملائیت کی گرفت، پیروں فقیروں کی زیادتیوں اور انگریزی حاکمیت کی سفاکی کے مناظر دیکھے تھے۔ اس لئے میں مروجہ صورتِ حال سے انتہائی حد تک متنفر تھا۔ یہی میری ترقی پسندی تھی۔‘‘
یہ پوچھنے پر کہ ’’اکثر احباب آپ کے بارے میں تذبذب اور گو مگو کی کیفیت سے دو چار ہیں کہ آپ بیک وقت کٹر مذہبی اور پکے ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں؟‘‘ ندیمؔ صاحب نے جواب دیا:
’’میں ’کٹر مذہبی‘ تو کسی صورت نہیں ہوں۔ میں تو بڑا فراخ دل مسلمان ہوں اور ہر اس نیک آدمی کو دل سے لگانے کو تیار ہوں جو چاہے کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہو مگر عملاً نیک ہو۔ ’’پکا ترقی پسند‘‘ یقیناً ہوں۔ میرا مذہب میری ترقی پسندی میں کسی طرف سے مزاحم نہیں ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں خود اسلام بے حد ترقی پسند مذہب ہے جس نے گورے کالے، عربی عجمی، امیر غریب اور بڑے چھوٹے کی تفریق ہی سرے سے ختم کر ڈالی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کا مسلمان بیشتر محض برائے نام مسلمان ہے۔ میرا ایک شعر ہے:
یوں مسلماں تو بہت ہیں، مگر اب تک نہ سُنا
اک مسلماں سے بھی، اک پیرو اسلام کا نام
ایک اور شعر ہے:
بھیک مانگے کوئی انساں تو میں چیخ اُٹھتا ہوں
بس یہ خامی ہے میرے طرزِ مسلمانی میں
اس صورت میں میری مذہبیت اور میری ترقی پسندی کے ضمن میں احباب کا تذبذب اور گومگو میں مبتلا ہونا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا ترقی پسندی کے لئے کافری ضروری ہے؟ کیا ترقی پسند کہلوانے کے لئے کمیونسٹ ہونا ضروری ہے؟ یقیناً نہیں، پھر یہ تذبذب چہ معنی ندارد۔‘‘
عبداللہ جاوید نے ندیمؔ کی ترقی پسندی کے بارے میں کہا ہے کہ:
’’وہ ترقی پسند مصنفین کی انجمن سے اس کے آغاز ہی سے منسلک رہے۔ جب اُس پر (حکومت کی طرف سے) پابندی لگی تو وہ ہی اس کے سربراہ تھے۔ اُنہوں نے ہی اس کا آخری منشور بھی جاری کیا۔ اس منشور کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ حکومت وقت کو کسی طرح قدرے نرم مؤقف دکھا کر انجمن پہ پابندی کے انتہائی اقدام سے باز رکھا جائے لیکن حکومتِ وقت کو اوپر سے یا باہر سے اشارے مل چکے تھے۔ چنانچہ ایک رات اچانک چھاپہ پڑا اور ملک بھر میں انجمن کے دفاتر سر بہ مہر کر دیئے گئے اور قلم کاروں کو جیل کی سلاخوں کے عقب میں کر دیا گیا۔ احمد ندیمؔ قاسمی بھی گرفتار کر لئے گئے۔‘‘
اکبر حمیدی لکھتے ہیں کہ:
’’(احمد ندیمؔ قاسمی) انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری رہے تو مخالفین کی مخالفت کا دلیری سے سامنا کیا۔ مقدمے بھی بھگتے، جیل بھی گئے، الزامات بھی برداشت کئے مگر اس مرکزی عہدے کے فرائض پوری قوت اور دیانت داری سے اداکئے کوئی اہم اور مشکل ذمہ داری قبول کرنے سے کبھی پہلو تہی نہیں کی۔‘‘
پروفیسر فتح محمد ملک سمجھتے ہیں کہ:
’’ترقی پسند شاعروں کے لئے تنقیدی ہدایت نامے مرتب کرنے والے آزادی کے تقاضوں کا صحیح شعور حاصل نہ کر سکے۔ اس لئے طلوعِ آزادی کے فوراً بعد یہ تحریک ختم ہو گئی۔ بہت بعد تک جسے آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا جاتا رہا وہ صرف ایک درماندہ رہرو۔۔۔۔۔ احمد ندیمؔ قاسمی کی صدائے دردناک تھی۔‘‘
صلاح الدین حیدر نے کہا کہ:
’’نقوی احمد پوری کی رائے ہے کہ وہ (ندیمؔ) صرف انجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکرٹری جنرل یا روحِ رواں ہی نہ تھے بلکہ وہ ترقی پسند ادب کے چراغ کو وحشی جھونکوں سے بچانے کے لئے خود کو ڈھال بنائے ہوئے تھے۔‘‘
میرٹھ، بھارت سے پروفیسر خالد حسین خان نے تحریر کیا ہے کہ:
’’ترقی پسند تحریک کو ایام طفولیت سے نکال کر عالم بلوغیت سے ہم کنار اور ہم دوش کرنے میں احمد ندیمؔ قاسمی نے میرِ کارواں کا فریضہ بھی ادا کیا، اسی کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اس تحریک کو نیا خون، نیا جوش اور نیا ولولہ بھی بخشا۔ احمد ندیمؔ قاسمی جیسا ادیب و شاعر، صحافی و مدیر، مربی و مرشد اس صفحہء گیتی میں کبھی کبھی ہی نمودار ہوتا ہے۔ ان جیسے فن کاروں کے لئے صحیح ہے کہ:
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘
ندیمؔ ترقی پسند ی کے بارے میں ڈاکٹر عبدالکریم خالد لکھتے ہیں کہ:
’’اُنہوں نے ایک مقصدِ حیات کو سامنے رکھ کر شاعری کی اور زندگی کے حقائق کو شعروں کا جامہ پہنایا۔ وہ انسان کی عظمت کے قیام، طبقاتی ناہمواری اور سامراجی تشدد کے خلاف زندگی بھر سرگرم عمل رہے۔ عالمی امن کا قیام ان کا خواب تھا۔ اس خواب کی تعبیر تلاش کرنے میں اُنہوں نے تمام عمر بسر کردی۔‘‘
مسعود اشعر واضح کرتے ہیں:
’’ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ قاسمی صاحب کا جوتعلق تھا، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ بھیمڑی کانفرنس کے بعد ترقی پسندوں میں جو انتہا پسندی آگئی تھی۔ قاسمی صاحب کا یہ مزاج ہی نہیں تھا کہ وہ عرصہ اس (انتہا پسندی) کے ساتھ چلے۔ اُس وقت اس تحریک میں واضح طور پر سیاست شامل ہوگئی تھی وہ بھی سویت یونین والی سیاست، قاسمی صاحب اس کے ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔ بعد میں ایفروایشین رائٹرز کی انجمن کے سلسلے میں بھی ان کا اختلاف ہوا۔ اس انجمن کے دو حصے بن گئے تھے۔ ایک سویت یونین کی ہم نوا تھی اور دوسری چین کی، فیض صاحب سویت یونین کی حامی انجمن کے ساتھ تھے اور قاسمی صاحب چین کی حامی انجمن کے ساتھ۔ بلکہ قاسمی صاحب اپنی اس انجمن کے سیکر ٹری تھے، دراصل قاسمی صاحب 1965ء کی جنگ کے بعد سویت یونین سے سخت ناراض تھے۔ وہ کسی حالت میں بھی اس کا ساتھ نہیں دینا چاہتے تھے۔‘‘
جبکہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی رائے میں:
’’قاسمی صاحب نے جس زمانے میں ترقی پسند تحریک میں فعال کردار ادا کیا، ترقی پسندی اور مذہب بے زاری لازم و ملزوم سمجھی جاتی تھی۔ مگر قاسمی صاحب نہ تو اپنی مذہبی اور مشرقی اقدار سے دست بردار ہوئے اور نہ ترقی پسند دانش ور کہلانے کی دُھن میں ساغر و مینا کا سہارا لیا۔‘‘
نئی دہلی سے خلیق انجم لکھتے ہیں:
’’احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کو اپنے ترقی پسند ہونے کی قیمت چکانا پڑی تھی۔ 1951ء میں اور 1958ء میں حکومت نے انہیں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے مہینوں نظر بند کئے رکھا۔‘‘
کینیڈا کے سیّد عظیم کے بقول:
’’ہمارے گریز کے جواب میں جناب عبداللہ کہنے لگے۔ کیا آپ قاسمی صاحب کو ترقی پسند نہیں سمجھتے؟ ان کی کوئی ایسی تحریر لے آؤ، جس سے وہ ترقی پسند معلوم نہ ہوتے ہوں۔‘‘
احمد ندیمؔ قاسمی نے 1989ء کے ایک انٹرویو میں اس سوال پر کہ ’’چرچا کیا جاتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کو آپ کبھی “اون” کرتے ہیں کبھی “ڈِس اون”، آپ بتائیں کہ ترقی پسند تحریک سے آپ کی وابستگی کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟‘‘ ندیمؔ صاحب نے یہ مفصل جواب دیا:
’’ترقی پسند تحریک ابتداء میں ایک مثبت تحریک تھی، پھر اس میں سیاست گھس آئی اور میں نے اس کا مقابلہ کرنے کی بڑی کوشش کی۔ نومبر 1949ء میں ترقی پسند مصنفین تحریک کا، اپنی مرضی کے برعکس سیکرٹری جنرل منتخب ہوا۔ میں نے کہا فیض احمد فیضؔ ایسی معروف شخصیات موجود ہیں، وہ اسے کیوں نہیں سنبھالتیں؟ لیکن کہا گیا کہ انہیں دوسرے کام تھے اور وہ دوسرے کام میری سمجھ میں آج تک نہیں آئے۔ میں سیکرٹری جنرل بنا تو پہلی ہی کانفرنس میں کچھ ادیبوں کے بائیکاٹ کا ریزولیوشن پیش ہوا۔ میں، ابراہیم جلیس اور کئی اور دوستوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی لیکن سیاسی حضرات کے غلبے کی وجہ سے قرارداد کثرتِ رائے سے منظور ہو گئی۔ ادیبوں کے بائیکاٹ نے ترقی پسند تحریک کا امیج تباہ کر دیا۔ ہم نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ میں نے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ہر شاخ سے قرارداد کے حوالے سے رائے لی۔ کسی نے ا س قرارداد کو پسند نہ کیا۔ ہم نے اسے واپس لے لیا، لیکن نقصان ہو چکا تھا۔ اسی دوران میں راولپنڈی سازش کیس ہوا جس میں فیض احمد فیضؔ بھی ملوث بتائے جاتے ہیں۔ حکومت نے حفظِ ماتقدم کے طور پر ہمیں بھی گرفتار کر لیا کہ ہم شور نہ مچائیں۔ ہم رہا ہوئے تو ترقی پسند تحریک کو سیاسی ادارہ قرار دے دیا گیا۔ کوئی سرکاری ملازم اس کا رُکن نہیں بن سکتا تھا۔ بہت سے سرکاری ملازم الگ ہو گئے تو ہماری تعداد مزید مختصرہو گئی اور ان میں بھی زیادہ تر خوف زدہ تھے۔ پھر محسوس ہوا کہ یہ قصہ تو ختم ہو گیا ہے اور مشرقی اور مغربی پاکستان میں تحریک تنظیمی اعتبار سے فعال نہیں تو میں نے 1954ء میں کہا کہ کیونکہ تحریک عملی طور پر سر گرم نہیں اس لئے میں سیکرٹری جنرل شپ سے مستعفیٰ ہوتا ہوں، لیکن میں ترقی پسند ہوں۔ اور کوئی شخص آگے بڑھ کر اسے سنبھال لے تو میں ایک رضا کار کی حیثیت سے پہلے کی طرح اس کا ساتھ دوں گا۔‘‘
’’ترقی پسند تحریک کی معاشی ناہمواری کے خلاف جدوجہد سے میں بہت متاثر ہوا اور اس سے میرے مذہبی عقائد پر کوئی زد بھی نہیں پڑتی تھی۔ میں نے اس کی رُکنیت قبول کی، اس کے عہدوں پر فائز رہا اور میں آج بھی کہتا ہوں کہ میں ترقی پسند ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ سیاسی ترقی پسند نہیں میں کمیونسٹ کبھی نہیں رہا اور اس کی وجہ میرے ارد گرد پھیلا ہوا مذہبی ماحول تھا۔ میں نے باشعور ہو کر مسائل پر غور وفکر کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خدا کی ذات سے انکار کر کے انسان اپنے آپ کو دھوکا ہی دے سکتا ہے۔ ذاتِ خداوندی کو خارج کر کے کائنات میں انتشار ہی باقی رہ جاتا ہے۔ ’’میں خدا کا منکر نہیں ہوں اور رسول کریمؐ کو خاتم النبیین مانتا ہوں۔‘‘ جب میں اپنے اشتراکی دوستوں سے یہ کہتا تو وہ گھبرا جاتے کہ یہ شخص کمیونسٹ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’(کمیونسٹ تو کیا) میں کہتا ہوں، اگر ترقی پسند تحریک کا منشور کوئی ہندو اور سکھ بھی پیش کرتا تو میں اس کے ساتھ چلتا۔ ایک غیر مسلم بھی خیر کی بات کہے تو میں اس کا مرید ہو جاتا ہوں اور اس سے میرے مذہبی عقائد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن جب ہمارے ترقی پسند دوست حد سے بڑھنے لگے تو پھر میں نے انہیں روکا، اسی لئے میں آج بھی ان کی نظر میں معتوب و مردود ہوں ۔۔۔۔۔ کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں۔ میں ترقی پسند تحریک میں خدا کے وجود سے انکار کی مسلسل مزاحمت کرتا رہا، لیکن ترقی پسند تحریک کے پروگرام سے مجھے کامل اتفاق ہے۔‘‘
ندیمؔ عوام نمائندگی
احمد ندیمؔ قاسمی اپنے نقطہء نظر کے اظہار میں لکھتے ہیں:
’’میرے باطن میں ایک معصوم بچہ چھپا بیٹھا ہے اور میرے باہر کے بوڑھے کو دیکھ کر کبھی کبھی حیران بھی ہوتا ہے کہ جب باہر کا یہ عالم ہے تومیں اندر بیٹھا کیا کر رہا ہوں مگر وہ موجود ہے۔ وہ بچہ جو ذرا ذرا سی بات پر خوش ہو لیتا ہے۔ جو روتا بھی ضرور ہے۔ مگر اس کے رونے کی مدت بہت مختصر ہوتی ہے اور وہ آنسوؤں میں مسکرانے لگتا ہے۔ وہ بچہ جو سوچتا ہے کہ سب انسان آپس میں دوست کیوں نہیں ہیں؟ اور دشمنی کے لئے کیا درندے کافی نہیں تھے؟ وہ بچہ جو محض حیران نہیں ہوتا بلکہ اس کرید میں لگ جاتا ہے کہ اسے حیرت کیوں ہوئی ہے؟ جو انسانوں اور انسانی رشتوں، پھولوں اور کونپلوں، بادلوں اور درختوں، آسمانوں اور خلاؤں، یعنی حسن کے تمام مناظر سے آج بھی بہت شدت سے متا ثر ہوتا ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ جب تک میرے باطن میں بیٹھا یہ بچہ زندہ ہے، چاہے میرے چہرے کی جھریاں لٹک آئیں اور چاہے میرے ہاتھ پاؤں میں رعشہ پیدا ہو جائے، میں تخلیقی لحاظ سے کبھی بوڑھا نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’میری زندگی اس لحاظ سے بہت بھر پور ہے کہ نشیب و فراز سے پُر ہے اور اس لئے واقعات وحادثات کے علاوہ مشاہدات واحساسات کا ایک انبار ہے مگر شاید ہمارے معاشرے میں افراد کی اکثریت کے سوانح ایسے ہی ہوتے ہیں اور میرا تعلق ملک کے ان افراد سے ہے جو اکثریت میں ہوتے ہیں اور عوام کہلاتے ہیں۔‘‘
بے شک ندیمؔ صاحب نے کہا تھا کہ:
’’جب تک عوام میں تعلیم عام نہیں ہوگی اور عوام ہماری تحریر نہیں پڑھیں گے، ہم اُن کی سوچ پر کیسے اثر انداز ہوں گے۔‘‘
لیکن عوام کے دُکھ سُکھ کی نمائندگی کرنے کا وعدہ وہ ہمیشہ نباہتے رہے۔
’’جس طرح عوام کے جذبات کی نمائندگی میں نے کی ہے۔ میرا تو یہ دعویٰ ہے کہ اس جیسی نمائندگی کسی اور نے کی ہی نہیں۔ آپ میرے افسانے اور نظمیں پڑھ کر دیکھ لیجئے آپ کو اس کا ثبوت مل جائے گا ۔۔۔۔۔ (میری اگر کہیں مخالفت ہوئی ہے تو) اُس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں عوام الناس کے جذبات، احساسات، مسائل اور ان کی امنگوں کا ترجمان ہوں۔ میں نے اپنی نظموں، غزلوں، افسانوں اور کالموں میں ہر جگہ عوام کی نمائندگی کی ہے۔‘‘
مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں:
’’احمد ندیمؔ قاسمی نے عوام سے اپنا رشتہ بنائے رکھا، البتہ صاحبانِ اقتدار سے ہمیشہ ایک شریفانہ دوری برقرار رکھی ۔۔۔۔۔ اُنہوں نے اپنے فن کے ذریعے اپنے زمانہ کے لب ولہجہ کو بر قرار رکھا۔‘‘
واقعی ندیمؔ نے سبھی انسانوں کو مدّ نظر رکھا ہے لیکن خواص کے لئے مخصوص ہو جانے کی بجائے ان کی ترجیح ہمیشہ عوام کی نمائندگی کرنا رہا۔ وہ کہتے ہیں:
یہی میرا ادب ہے اور یہی میری سیاست ہے
میرے جمہور ہی سے میری فنکاری عبارت ہے
’’ندیمؔ ‘‘
ندیمؔ ادبیت
ندیمؔ کی شاعری، افسانہ، کالم نگاری، اور تنقید پر چند مختصرمگر نہایت اہم آراء ملاحظہ کیجیے۔
جوش ملیح آبادی :
’’سچ بولنا ہمیشہ خطرناک رہا ہے، لیکن میں، ہزاروں بار مجروح ہونے کے بعد بھی، سچ بولنے کی ’’خُوئے بد‘‘ سے باز نہیں آیا اور اِس بنا پر یہ لکھ رہا ہوں کہ اِس دور کے جِس قدر شاعر ہیں احمد ندیمؔ قاسمی کو اُن سب سے بمراحل بہتر سمجھتا ہوں میں ندیمؔ کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ اور مجھے اِس سے محبت بھی ہے ۔‘‘
فراق گورکھپوری:
’’اُن کا کلام ایک حساس دل و دماغ کی پیدوار ہے جس نے ان کے لہجہ میں ایک چٹیلا پن اور ان کے انداز فکر میں ایک خلوص اور گہرائی پیدا کر دی ہے۔ ان کی شاعری میں تقلید وفرسودگی، باسی پن، روایت زدگی اور پیش یا افتادہ باتیں نہیں ہوتیں۔ ان کی بجائے اک تازگی کا احساس ہوتا ہے جو محض جدّت سے نہیں پیدا ہو سکتی بلکہ ایک انفرادی وجدان سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ جناب احمد ندیمؔ قاسمی کا ایمان زندگی ہے، جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا ہے۔ ندیمؔ اُردو ادب میں تنہا وہ آدمی ہیں جنہوں نے افسانہ نگاری اور شاعری دونوں اصنافِ ادب میں نئی سمتوں اور نئی منزلوں کی نشان دہی کی ہے۔‘‘
حفیظ جالندھری:
’’اپنے سب جفادری ساتھیوں میں ندیمؔ ہی ایک فردِ وحید ہیں کہ اُن کے شعروں میں جدتِ خیال کے علاوہ جدتِ احساس بھی ہے اور قلوب تک پہنچنے والی گہرائی بھی۔‘‘
سیّد عابد علی عابدؔ:
’’انسان تو ایک شعر سے غیر فانی ہوتا ہے۔ اُنہوں نے تو مجموعے قلم بند کئے ہیں۔ جن میں ابدیت کی جھلک گہری ہوتی چلی جاتی ہے ۔‘‘
محمد احسن فاروقی:
’’وہ نمایاں انفرادیت کے مالک ہیں اور ان کی یہی عظمت میرے لئے دلیل تھی۔‘‘
سیّد احتشام حسین:
’’کیا افسانہ نگاری اور کیا شاعری، دونوں قاسمی کے ذہنی ارتقاء اور تخلیقی لگن کی ایک دلکش داستان سُناتی ہیں۔ وہی مشاہدہ کی گہرائی اور تازگی، وہی انداز کی فسوں گری، وہی اہم اور غیر اہم کا امتیاز، وہی رومانی وفور کے سانچے میں ڈھلی ہوئی حقیقت پسندی، وہی گدازِ قلب اور وہی انسان دوستی، وہی احترامِ فن اور وہی انفرادی اندازِ نظر ایک اچھے شاعر اور افسانہ نگار، اچھے دوست اور اچھے انسان کی ساری خوبیاں قاسمی میں جمع ہو گئی ہیں۔‘‘
ڈاکٹرسید عبداللہ:
’’(ندیمؔ کی شاعری پڑھ کر) بہت سی یادیں زندہ ہو جاتی ہیں اصل شاعری کی پہچان یہ ہے کہ اس کو پڑھ کر یوں لگے گویا کوئی کھوئی ہوئی شے پالی ہے۔۔۔۔۔ ندیمؔ کی آواز اور ندیمؔ کا فن منفرد ہے۔‘‘
اختر اورینوی:
’’ندیمؔ کا مشاہدہ گہرا ہے۔ وہ بہت ہی ذکی احساسات کے مالک ہیں۔ ان کے جذبات میں گرمی بھی ہے اور روشنی بھی۔ ان کی شاعری کے شعلے کبھی غیر مہذب طور پر نہیں بھڑکتے۔ ندیمؔ تہذیبِ جذبات کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں بڑی شائستگی ہے۔ ندیمؔ کا تخیل بھی بے راہ رو نہیں ہوتا ان کی تشبیہات و استعارات میں بڑی جدت پائی جاتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبادت بریلوی:
’’ندیمؔ انسان کو فطرت کا شاہکار سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ ارتقاء کا پیشواء اور ترقی کا پیامبر ہے اُس کا نصب العین تزئینِ حیات ہے ندیمؔ کے خیال میں زندگی عمل سے عبارت ہے اور انہیں کائنات کی ہر شے میں حرکت کا احساس ہوتا ہے۔ ندیمؔ کی شاعری میں ایک سنجیدگی اور وقار ہے، رکھ رکھاؤ ہے وہ ترشی ہوئی اور سجی سجائی شاعری نہیں ہے۔ اس میں تو وہ حُسن ہے جو تکلف سے بری ہوتا ہے اور جس کو حُسنِ فطرت کہہ سکتے ہیں اُن کے یہاں تو سیدھے سادے انداز میں بات کہنے کا سلیقہ ہے۔‘‘
وقار عظیم:
’’(ندیمؔ ) افسانہ نگار کی بصیرت ہیں۔ نظر نے جو کچھ دیکھا ہے اور جس کی تصویر کھنچی ہے وہ اس کے لئے سچ مچ ایک زندہ حقیقت ہے اس نے کبھی کبھی ایسی باتیں کہی ہیں جنہیں مشاہدے سے آگے بڑھ کر ادراک کی باتیں کہا جاسکتا ہے ندیمؔ کے افسانوں میں کہیں کہیں حقیقت سے ماوراء ایک او ر حسین حقیقت کی چھوٹی چھوٹی تصویریں ملتی ہیں جسے کوئی اور اپنے مکمل روپ میں نہیں دیکھتا۔‘‘
اسلوب احمد انصاری:
’’پریم چند کے دور کے بعد جن افسانہ نگاروں نے افسانے کی روایت کو آگے بڑھایا اور اسے سستے پرو پیگنڈے کا آلہء کار نہ بناتے ہوئے زندگی اور سماج کی سنجیدہ فنی تنقید کے لئے استعمال کیا، ان میں احمد ندیمؔ قاسمی کا نام ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
’’ندیمؔ قاسمی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے یہاں ایک اعلی فن کار کی جرأت اور صداقت کے ساتھ تہذیب اور دلسوزی، متانت اور میانہ روی اور ہمدردی اور رفاقت کا جذبہ ہر قدم پر ہمارا ساتھ دیتا ہے۔ وہ انسانوں کے سامنے ایک آئینہ بھی رکھ دیتے ہیں جس میں ان کی خوبیاں اور خامیاں بلا کم و کاست جھلک اُٹھیں اور ایک معیار بھی، جہاں تک اُنہیں پہنچنا ہے۔‘‘
وقار انبالوی:
’’(ندیمؔ ) قاسمی نے جب سے تازیانہء طنزومزاح ہاتھ میں لیا ہے، زندگی پر سنجیدگی سے غور کرنے والوں کے دل بھی ہلا کر رکھ دیئے ہیں۔ غم کدہء حیات میں کہ تضادات سے عبارت ہے، ہر دل کی تیرگی میں مسرت کی ایک ننھی سی کرن رجائیت کے نور سے چمکتی رہتی ہے۔ قاسمی کی نظر بڑی حد تک اسی کرن پر مرکوز رہتی ہے، اسی نے اپنے ’’حرف و حکایت‘‘ کے کالم میں لکھا ہے:
’’یہ کالم زندگی میں ذرا سی شگفتگی پیدا کرنے کے لئے ہے۔ اگر اس شگفتگی کے پردے میں معاشرے کی کسی خرابی کی اصلاح ہو جائے تو سبحان اللہ‘‘۔
ڈاکٹر انوار احمد:
’’احمد ندیمؔ قاسمی کی تخلیقی شخصیت متنوع رنگ تھی ۔۔۔۔۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اپنے معیار اور مقدار کے لحاظ سے احمد ندیمؔ قاسمی نے اپنی طویل زندگی میں جتنا تخلیق کیا۔ اس کا مقابلہ ان کا کوئی معاصر نہیں کر سکتا ۔‘‘
اُن کی تنقیدی بصیرت کے مظہر ان کے کئی مضامین ہیں۔ ان کے مضامین کے چار مجموعے (’’ادب اور تعلیم کے رشتے‘‘، ’’تہذیب وفن‘‘، ’’پسِ الفاظ‘‘ اور’’معنی کی تلاش‘‘۔ جبکہ شخصی خاکوں کے دومجموعے: ’’میرے ہم سفر‘‘ اور ’’میرے ہم قدم‘‘) شائع ہو چکے ہیں۔ ’معنی کی تلاش‘‘ میں شامل اپنے ایک مضمون ’’تنقید کے سانچے‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’تنقید کے لئے جب چند سانچے گھڑ لئے جائیں اورتنقیدی ادب ان سانچوں میں ڈھل ڈھل کر برآمد ہونے لگے توتنقید کے اُفق سمٹ جاتے ہیں۔‘‘
(جبکہ)’’میرے ہم قدم‘‘میں مختار صدیقی اور ریاض شاہد کے خاکوں میں ان کی ایک بے حد اہم نقاد کی حیثیت نمایاں ہوتی ہے۔‘‘
اپنے شعرو ادب کے بارے میں احمد ندیمؔ قاسمی وضاحت کرتے ہیں کہ:
’’میں نے پندرہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کئے تو مناظرِ فطرت کے حُسن اور اسلامی روایات کے طنطنے کے ساتھ مجھے اس معاشرتی اور معیشی تفاوت نے بھی متاثر کیا اور میں رومانوں میں اٹے ہوئے ذہن کا وہ چور دروازہ بند نہ کر سکا جس میں سے آنکھوں دیکھی سفاک حقیقتیں اندر سرک آتیں تھیں مگر اس وقت مجھ پر یہ حقیقتیں محض رقت کی کیفیت طاری کر سکتی تھیں اور میں اسی کیفیت کو اپنی کہانیوں میں منتقل کر دیتا تھا۔ بہت بعد میں مجھے یہ سوچنے کا خیال آیا کہ فلاں غریب ہے تو آخر کیوں غریب ہے؟ وغیرہ اور جب میں نے یہ سب کچھ سوچا تو ہر حقیقت کے پیچھے مجھے روپوں کی تھیلی چھنچھناتی سُنائی دی۔ میں اخلاقی اور روحانی قدروں کا منکر نہیں ہوں۔ میں داڑھی مونچھیں منڈا دینے یا کوٹ پتلون پہن لینے کو مشرقی اخلاق کی بے حرمتی نہیں سمجھتا، لیکن انسان سے محبت کرنے، خلوص برتنے اور سچ بولنے، بے تعصب اور بے ریا رہنے، نڈر ہو کر سچائی کا اعلان کرنے اور ظالم کی طرف بر سرِ بازار اُنگلی اُٹھا کر اسے ظالم کہہ دینے کو بہترین اخلاق تصور کرتا ہوں۔۔۔۔۔ میں تو ابھی کھل کر بات کرنے کا انداز ہی سیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ کہ ایک خوش گوار صُبح کو میرے گھر کے دروازے پر پولیس کے ایک انسپکٹر نے کہا:’’یو آر انڈر اریسٹ!‘‘۔ تو کیا اپنا شہ پارہ لکھ کر مجھے پھانسی کا منتظر رہنا چاہیئے؟‘‘۔
حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیمؔ
وہ شخص تو غریب وغیور انتہا کا تھا
ندیمؔ کمی
میں، میرے نقّاد بہت ہی بُرا سہی
اتنا بُرا نہیں ہوں، جتنا اچھا ہوں
’’ندیمؔ‘‘
میں چھوڑ کے سیدھے راستوں کو
بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں
’’ندیمؔ ‘‘
احمد ندیمؔ قاسمی اپنی 80 ویں سال گرہ کے موقع پر کہتے ہیں:
’’میں یہ سوچ کر ایک عجیب سی تسکین محسوس کرتا ہوں کہ میں اس معیادِ حیات میں نہ کسی کو فریب دینے کا مرتکب ہوا ہوں اور نہ میں نے کبھی اپنے ضمیر کو فریب دینے کی کوشش کی ہے۔ یقیناًاس مدت میں بعض لغزشیں بھی ہیں، بعض کوتاہیاں بھی ہیں، بعض نادانیاں بھی ہیں اور ان کا جواز بھی نہیں ہے مگر یہ عام انسانی فروگزاشتیں ہیں بلکہ میرا مؤقف تو یہ ہے کہ مجھ سے یہ فروگزاشتیں سرزد نہ ہوتیں تو بحیثیت انسان میری تکمیل ہی معرضِ خطر میں پڑ سکتی تھی۔‘‘
اپنے ابّا جی کے بارے میں ناہید قاسمی نے بتایا کہ:
’’ندیمؔ صاحب خاصے محتاط تھے اور اکثر ایک غلطی کو دوہراتے نہیں تھے۔ میرے نزدیک صرف دو باتیں ایسی ہیں جو اُن سے بار بار سر زد ہو جاتیں۔ ایک تو یہ کہ وہ دوسروں پر حد سے زیادہ اعتبار کر لیتے اور دوسری بات یہ کہ وہ معاف کرنے میں بہت جلدی کرتے۔ نتیجے میں انہیں چند فریبوں اور دھوکوں کو سہنا پڑتا۔ لیکن اُن کی وسعتِ قلب انتہا کی تھی سو یہ سب وہیں جذب ہو جاتا اور وہ بظاہر ہلکے پھلکے ہو کر اپنے معمول کے سفر پر رواں دواں ہو جاتے۔
’’وہ عام انسانوں سے لے کر معتبر شخصیات تک، سب کا ذکر انتہائی اپنائیت سے کرتے۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا کہ وہ خواہ مخواہ حمایت کر رہے ہیں یا یہ کہ کسی کو ضرورت سے زیادہ قابلِ توجہ سمجھ رہے ہیں۔ لیکن بالآخر میں اسے اپنی تنگ دلی ٹھہراتی اور ان کی لا محدود وسعتِ قلب و نظر کی قائل ہو جاتی۔‘‘
ندیمؔ صاحب کی بیگم رابعہ ندیم نے ایک انٹرویو میں کہا:
’’ویسے تو ہم کبھی کبھار لڑ بھی لیتے ہیں مگر شاعری کی وجہ سے کبھی ایک لڑائی بھی نہیں ہوئی۔ لڑائی عموماً خرچ اخراجات کے مسئلے پر ہو جاتی۔ کیونکہ ندیمؔ صاحب روپیہ پیسہ خرچ کرنے کے معاملے میں بہت تیز ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے پاس جو روپیہ ہے، وہ اسے ایک دم خرچ نہیں کر دیں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔ روپیہ خرچ کرنے کا معاملہ ہو تو آنے والا دن ان کے لئے بالکل بے معنی ہو جاتا ہے سو ان کی اس عادت پر بعض اوقات تلخی ہو جاتی ہے۔ وہ بے حد خوش مزاج ہیں، بے حد صاف گو ہیں۔ کبھی کوئی لگی لپٹی اُٹھا کے نہیں رکھتے۔ اس طرح بعض اوقات مشکلات میں بھی گھر جاتے ہیں مگر مجھے ان کی صاف گوئی سے پیار ہے۔‘‘
جہاں تک ندیمؔ کے فن کی بات ہے تو1946ء میں ندیمؔ کے پہلے شعری مجموعے ’’جلال وجمال‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے سیّد احتشام حسین نے کچھ پہلوؤں کی تعریف کی، ساتھ میں یہ بھی کہا:
’’اُن کے فن میں خامیاں بھی ہیں لیکن ان کی کوشش ایک سچے شاعر کی کوشش ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی جھجک نہیں کہ ’’جلال و جمال‘‘ اُردو کے شعری ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ جس مجموعہ میں ’’پرتو‘‘، ’’کروٹیں‘‘، ’’میری زمین‘‘، ’’نسیم کے نام‘‘، ’’شکاری‘‘، ’’ترکِ محبت کے بعد‘‘، ’’حریتِ فکر‘‘، ’’افشائے راز‘‘، ’’شکست و ریخت‘‘، ’’ردعمل‘‘، ’’راستے کا موڑ‘‘، ’’ماہتابِ فردا ‘‘ اور ’’گریز‘‘ ایسی نظمیں موجود ہیں۔ اس کے دل پذیر ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے!‘‘
روایت پسندوں نے کہا کہ ندیمؔ کے کچھ الفاظ شاعری کی ڈکشن سے میل کھاتے الفاظ نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں پہلے مولانا عبدالمجید سالک صاحب کی رائے دیکھئے۔ 1953ء میں ’’شعلہء گل‘‘ کے تعارف میں اُنہوں نے لکھا ہے:
’’ندیمؔ الفاظ کے انتخاب میں بے حد محتاط ہے، وہ ان کی موسیقی کو بھی سمجھتا ہے اور بعض اوقات ان کے استعمال میں ایسا امتیاز کرتا ہے کہ پرانے شعراء منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور انہیں انکار اور اعراض کی جرأت نہیں ہوتی۔‘‘
اور 2002ء میں ڈاکٹر ناہید قاسمی نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا:
’’اردو غزل میں ندیمؔ نے انوکھے، بامعنی، سادہ اور آج کل کی اُردو زبان کے مقبول، قابلِ قبول اور مستقبل گیر الفاظ بہت سلیقے سے برتے ہیں۔ مجموعی طور پر ندیمؔ کے الفاظ احساس، جذبے، حقیقت، شعور، فکر اور نظرئیے کے اظہار و ابلاغ کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کردہ ایسے انوکھے الفاظ بھی ہیں جن کو کچھ نقّادوں نے اردو غزل کے مزاج سے مختلف بتایا ہے لیکن یہی غزل کے مزاج سے ہٹ کر الگ سے مستعمل سمجھے جانے والے الفاظ، ندیمؔ کی منفرد غزل میں جس جس مقام پر استعمال ہوئے ہیں، بر محل و بر موقع ہیں۔ ایک جری، مضبوط مزاج کے حامل توانا لہجے کے لئے نزاکت مناسب ہی نہیں ہے۔ البتہ ندیمؔ کی غزل میں نرمی اور نفاست ضرور ہے اور خاص شے، جسے میں ان کے تعزل کی اہم پہچان کہوں گی کہ ہر طرح کی شدتوں میں بھی ہمیشہ توازن اور اعتدا ل پسندی کا پاس رکھا ہے۔‘‘
ندیمؔ صاحب کے دوست محمد خالد اختر نے اُن میں یہ کمی محسوس کی کہ:
’’ندیمؔ حد درجہ مخلص ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو بت پرستی کی حد تک پوجنے لگتا اور آسانی سے متاثر ہو جاتا۔ اس نے ہمیشہ زندگی میں شدید جذباتی دوستیاں بنانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
جبکہ ندیمؔ کہتے ہیں:
محبت میں تو غم بھی نفع ہے، دُکھ بھی کمائی ہے
محبت میں کبھی گنتی نہیں ہوتی خساروں کی
ندیمؔ مقامِ انفرادیت واہمیت
جس بھی فن کار کے شہ کار ہو تم
اُس نے صدیوں تمہیں سوچا ہو گا
’’ندیمؔ ‘‘
ندیمؔ کے دوست محمد خالد اختر دلچسپ انداز میں لکھتے ہیں کہ:
’’وہ اب سمن آباد میں اپنے ایک متواضع اور صاف ستھرے چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ ایک نرم دل باپ، ایک اچھا، خیال رکھنے والا شوہر، ہمیشہ خوش اخلاق، متواضع، ہنس مکھ، کسی قدر محتاط اور مطلقاً راست رو اور بُری عادتوں سے پاک آمدنی کے محدود ذرائع کے باوجود اس کا ہاتھ بڑا کھلا ہے۔
’’ندیمؔ نے شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ دوسری اصناف میں بھی اپنی لیاقتوں کا استعمال کیا ہے، اس نے اُردو میں اوپیرا بھی لکھے ہیں۔ طنزیہ اور مزاحیہ مضامین میں طبع آزمائی کی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم سکرپٹ روانی سے اور قلم برداشتہ تحریر کئے ہیں پھر اس کی روزانہ اخبار میں مزاحیہ کالم نویسی ہے۔ ہر روز کی پُرتکان مشقت اور تخلیقی فن کار کے لئے ایک بے روح عمل “ہارڈ ورک”، یہ روزانہ کالم اس کی اور اس کے کنبے کی بقاء کے لئے ضروری ہیں ،اس کا ذریعہء معاش ہیں۔
’’وہ ادبی دُنیا کی اس بلندی پر پہنچ چکا ہے کہ ادبی انجمنوں، کالجوں کی مجالس اور ہر ایک قسم کے مشاعروں کی صدارت کے لئے اس کی کافی مانگ رہتی ہے۔ ایک ’’بیبا‘‘ انسان ہونے کی وجہ سے وہ انکار نہیں کر سکتا اور اکثر طوعاً و کرہاً اسے یہ اعزاز اپنے سر منڈھنا پڑتا ہے۔ ایک ادبی مجلے کے مدیر کو خالص کاروباری شخص ہونا چاہیئے، جو وہ اصلاً نہیں۔ وہ حساب کتاب نہیں رکھ سکتا اور میں اکثر تعجب کرتا ہوں کہ وہ ’’فنون‘‘ میں اشاعت کے لئے آنے والے مسودات کو کیونکر سنبھال کر رکھتا ہے۔‘‘
قیصر تمکین نے تحریر کیا ہے کہ:
’’ایسے حضرات تو تقریباً عنقا ہیں کہ جو ادب وفن کی خدمت کے ساتھ ہی دوسری گھریلو اور سماجی ذمہ داریاں بھی بحُسن و خوبی نبھا سکیں۔ حال یہاں بھی قاسمی صاحب کا ایک حیرت انگیز انفرادیت سے مملو ہے۔‘‘
ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ:
’’زندگی سے بھر پور، ہنسی سے معمور، دوستوں سے پیار کرنے والا اور اپنے بیگانے کا ساتھی، ایسا شخص کیسے مر سکتا ہے. کیلنڈر عمر بسر کرنے والے افراد کے پاس محض شخصیت ہے جبکہ تخلیق کار، تخلیقی شخصیت کا بھی حامل ہوتا ہے اور تخلیق کار کا ’’کَرِزما‘‘ اس کی تخلیقی شخصیت کی بناء پر ہوتا ہے۔ یہ خداداد ہے ’’کرزمائی شخصیت ‘‘ میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ بلاوجہ اس سے پیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اسے خوش کر کے خوشی حاصل ہوتی ہے، تو خوش دیکھ کر جی خوش ہوتا اور خدمت سے راحت حاصل ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ احمد ندیمؔ قاسمی بھی ایسی ہی ’’کرزمائی شخصیت‘‘ کے حامل تھے، اسی لئے اُن سے جو بھی ملا انہی کا ہو کر رہ گیا۔‘‘
ڈاکٹر خورشید رضوی، ندیمؔ کی ایک انفرادیت کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ:
’’قاسمی صاحب لوگوں (کی آوازوں) کی دلچسپ نقل اُتارتے تھے ۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔ خود پر ہنس سکنے کی سکت اُن میں بہت تھی۔ اُس روز انہوں نے اپنے ثقل سماعت کے حوالے سے خوب خوب بذلہ سنجی فرمائی۔‘‘
اشفاق حسین اپنی یادیں کچھ اس طرح تازہ کرتے ہیں کہ:
’’قاسمی صاحب وقت کے بہت پابند تھے میں نے ان مشاعروں میں ایک خاص بات یہ نوٹ کی کہ قاسمی صاحب نے ہمیشہ ابتداء میں اپنا تازہ کلام پیش کیا اور بعد میں حاضرین کی فرمائش پر اپنی پرانی تخلیقات بھی پیش کیں جبکہ ان دنوں دیکھا یہ جا رہا ہے کہ بڑے بڑے شاعر اپنے پرانے اور مشہور ہو جانے والے کلام ہی کو مشاعرے میں بار بار پڑھ رہے ہیں۔ قاسمی صاحب جو اپنا نیا کلام لازمی سُناتے تھے اس کی وجہ ان کی مکمل خود اعتمادی تھی۔‘‘
اطہر رضوی رقم طراز ہیں کہ:
’’(بقول اختر الایمان:) ’’مجھے بہت دنوں سے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ وہ بڑے آدمی جو پیدا ہوا کرتے تھے، اب پیدا نہیں ہوتے۔‘‘ جمیل الدین عالی نے (ندیمؔ صاحب پر) اپنے کالم کا نام ’’آخری بڑا آدمی‘‘رکھا تھا۔ احمد ندیمؔ قاسمی اپنے عہد، اپنے دور، اپنے وقت کے بہت بڑے آدمی تھے۔ ان کی شخصیت ایک ایسے بڑے گھنیرے پیڑ کی مانند تھی جس کی ٹھنڈی اور روح افزاء چھاؤں سے اُردو شعر و ادب کے شیدائی گزشتہ تقریباً چھ عشروں سے فیض یاب ہو رہے تھے اور پھر اُنہوں نے خود کہا ہے:
دشمن بھی جو چاہے تو مِری چھاؤں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ سرِ راہ گزر ہوں
’’میرے نزدیک ایک ان کی شخصیت کے تعلق سے چند ایسے حقائق وابستہ ہیں جن کی بدولت وہ مشاہیر اہلِ قلم کی صف میں سب سے ممتاز ومنفرد نظر آتے ہیں۔ ’’قاسمی صاحب اپنے عہد کے معروف ترین فن کار تھے۔ اُنہوں نے مختلف مخالفتوں کا سامنا کیا، ایوب کے دورِ آمریت میں دو مرتبہ جیل گئے لیکن ساری زندگی اپنا انداز، اپنی فکر، اپنا مزاج، اپنا مؤقف، اپنا فلسفہ اور اپنی اقدار بر قرار رکھیں:
دستک سے دستِ فن کو نہ آلودہ کر ندیمؔ
سب جا رہے ہیں جانبِ در، تو مگر نہ جا
’’احمد ندیمؔ قاسمی اپنی شرافت، برد باری، متانت، بزرگی، نرمیء گفتار، میانہ روی، اخلاص، تحمل اور بے پناہ محبت کی خصوصیات سے دنیا جہاں میں پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کا ایک مقبول و معروف شعر ہے:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تودریا ہوں، سمندر میں اُتر جاؤں گا ‘‘
اور ضرب المثل بن جانے والا شعر:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
’’ندیمؔ ‘‘
مجتبیٰ حسین کی رائے میں:
’’احمد ندیمؔ قاسمی بنیادی طور پر نہایت شریف، با ظرف اور شائستہ انسان تھے۔ اُنہوں نے قلم کو ذریعہء معاش بنایا اور قلم کی حرمت کو برقرار رکھتے ہوئے نہایت خوددار اور باوقار زندگی گزاری۔
’’احمد ندیمؔ قاسمی نے عوام سے اپنا رشتہ بنائے رکھا، البتہ صاحبانِ اقتدار سے ہمیشہ ایک شریفانہ دوری برقرار رکھی۔ اُنہوں نے اپنے فن کے ذریعے اپنے زمانے کے لب ولہجہ کو ایک نیا آہنگ دیا۔ اُنہوں نے سینکڑوں افسانے لکھے، ہزاروں شعر کہے، ہزاروں کالم اور مضامین لکھے اور اپنی بات کو وضاحت، صراحت، فصاحت اور بلاغت کے ساتھ اپنے قارئین تک پہچانے کی دیانتدارانہ کوشش کی۔ ان کی تخلیقات ہمارے ادب کا ایک انمول خزانہ ہیں اور اُن کی اس دین کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘‘
آفتاب اقبال شمیم لکھتے ہیں:
’’وہ تین چوتھائی صدی تک بے تھکان لکھتا ہی چلا گیا۔ اُس کا قلم کبھی دم لینے کے لئے بھی نہیں رکا۔ کوئی ہے جس نے ادب کی اتنی اصناف میں معیارِ ہنر کو بر قرار رکھتے ہوئے اتنا لکھا ہو؟ لیکن ایک امیج، ایک علامت، ایک لیجنڈ، خیال کا ایک روشن پیکر بننے کا اعزاز جو اسے اس وقت مل رہا ہے، اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ وہ وجہ ہے اس کا بڑا آئیڈیل جس کے ساتھ اس کی کومٹ منٹ تادمِ آخر رہی۔
’’احمد ندیمؔ قاسمی کی شاعری اور افسانہ نگاری تو اپنی جگہ لیکن اس کے چالیس سال کے مجاہدے (’’فنون‘‘) اور ریاضت نے ہمارے ادب کو مسلسل تخلیقی وفور میں رکھا، اسے کسی انتہا پسندی یا بنیاد پرستی سے بچ کر جمہور پسندی کے راستے پر چلنے کی سمت دکھائی اور میں سمجھتا ہوں کہ اردو ادب میں احمد ندیم ؔ قاسمی کی یہ چالیس سالہ شخصی واردات، مستقبل میں کئی تخلیقی مقالوں کا موضوع بنے گی۔‘‘
امجد اسلام امجد:
’’ان کی طبیعت میں جو نرمی، گداز، برداشت اور معاف کر دینے کی حیرت انگیز خوبی تھی، اس کا مظاہرہ میں اکتالیس برس سے دیکھتا آرہا ہوں ۔‘‘
عطاالحق قاسمی :
’’یوں چالیس برسوں پر پھیلے ہوئے اس عرصے میں مجھے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے ان کی شخصیت میں سب انسانی خوبیاں دیکھیں جو آہستہ آہستہ زندگی کے تمام شعبوں کے افراد بشمول ادباء شعراء میں دم توڑتی جارہی ہیں۔ وہ عجز وانکسار کا پیکر تھے۔ پسے ہوئے طبقوں کے لئے ان کا قلم ہی نہیں، ان کا دل بھی روتا تھا۔ وہ بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ تھے۔ پاکستان اور اس کے عوام سے باندھے ہوئے عہدِ وفا پر وہ آخری سانس تک قائم رہے۔ اسی طرح اسلام کی موجودہ مسخ کی گئی شکل اور اس کے جعلی پیروکاروں سے وہ متنفر تھے مگر وہ مذہب کے باغی نہیں تھے بلکہ اس پر پختہ ایمان رکھتے تھے ۔‘‘
محمد اظہارالحق:
’’دنیائے ادب کا بے تاج بادشاہ ہونے کے باوجود انکسار اور وضع داری کا یہ عالم تھا کہ حقیر سے حقیر اور گم نام سے گم نام آدمی کے خط کا جواب اپنے قلم سے دیتے۔
’’آخر احمد ندیمؔ قاسمی کی درویشی اور فقیری کا تذکرہ کیا جائے تو کچھ پیشانیوں پر بل کیوں پڑ جاتے ہیں؟ وہ ثنائی کی طرح صوفی نہ تھے لیکن اس میں کیا شک ہے کہ اُنہوں نے دنیا کو جو سمجھا، اُنہوں نے جن پسے ہوئے طبقات کی ہم نوائی کی اپنے آپ کو آخری دم تک ان سے وابستہ رکھا۔ وہ چاہتے تو شادمان یا ڈیفنس یا کسی امیرانہ بستی میں منتقل ہو جاتے اور طمطراق والی سواری رکھ سکتے تھے۔ اس لئے کہ ان سے کئی گنا کم مرتبے کے ادیب اور شاعر ان بستیوں میں نتقل ہوئے ہیں اور یہ کوئی بری بات نہیں لیکن احمد ندیمؔ قاسمی نے ایسا کرنا گوارا نہ کیا۔ ان کا جنازہ پکی ٹھٹھی سے نکلا‘‘
وقت بدلا پہ نہ بدلا مِرا معیارِ وفا
آندھیوں میں سرِ کہسار چراغاں جیسے
’’ندیمؔ‘‘
’’احمد ندیمؔ قاسمی نے اپنے اوپر کوئی خول نہیں چڑھایا وہ سچا کھرا مسلمان تھا۔ سچائی میں تلوار کی طرح برہنہ اور باطن اور ظاہر ایک رکھنے والا۔ اُنہوں نے کوئی ڈرامہ نہیں رچایا، ان میں اتنا عجز وانکسار تھا کہ اُن کی تعریفیں سُن کر چیں بہ جبیں ہونے والے اس عجز وانکسار کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔‘‘
فیاض عزیز:
’’شعروادب میں جس قدر کام ندیمؔ صاحب نے کیا، شاذ ہی کوئی دوسرا شاعر اور ادیب اس کا دعوی بھی کر سکے۔ نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کی جس طرح آپ نے حوصلہ افزائی کی اس کی مثال کسی اور کے ہاں نہیں ملتی۔ شعروادب کی تاریخ میں اتنی ہمہ جہت شخصیت خال خال ہی پیدا ہوئی ہے۔ اقبالؔ ، میرؔ ،غالبؔ اور فیضؔ کے بعد کم ہی کسی کو اتنی شہرت و مقبولیت، اتنا مقام اور اتنی شان حاصل ہو پائی۔‘‘
طاہر سرور میر:
’’قاسمی صاحب ایسی شخصیت تھے، جنہوں نے اپنے عہد کے تمام لوگوں کو متاثر کیا۔ بلاشبہ وہ جس دور میں جیئے اسے احمد ندیمؔ قاسمی کا دور کہا جائے گا۔‘‘
ندیمؔ اور نسلِ نو
ندیمؔ میرے جلو میں تھی نسلِ مستقبل
میں صرف ایک تھا اور بے شمار ہو کے چلا
’’ندیمؔ‘‘
احمد ندیمؔ قاسمی نسلِ نو سے نہ صرف بہت پیار کرتے ہیں بلکہ اُن سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کرتے ہوئے اُسے اپنا روشن مستقبل قرار دیتے ہیں۔ ایک موقع پر اُنہوں نے یوں بات کی کہ:
’’میں آج کے ادیب کے مثبت رجحانات کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اگر نئی نسل کے ہاں نیا پن نہ ہو تو وہ مجہول نسل ہو گی۔ ہم لوگ اپنے زمانے میں نئے تھے۔ آج کے نوجوان اپنے زمانے میں نئے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے عصر کے حوالے سے نئے رویے اختیار نہ کئے ہوتے تو اب تک مر چکے ہوتے۔ ادیبوں کی نئی نسل اگر محض تقلید وپیروی کے چکر میں گرفتار ہو جائے تو وہ نئی نسل کہاں ہو گی! بعض نوجوانوں میں زندگی کی نفی کے رجحان بھی موجود ہیں یہ ’’عارضی‘‘ لوگ ہیں۔ سو اِن کا نوٹس نہیں لینا چاہئیے۔ میں تویہ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں کہ نوجوان نسل میں ایسے ایسے توانا عناصر نمایا ں ہو رہے ہیں کہ ہمارے ادب و فن کے ارتقائی سفر کے بارے میں کسی تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’مستثنیات ہر جگہ ہوتی ہیں۔ ان سے قطع نظر کیجئے تو ہمارا ادب آگے بڑھ رہا ہے اور اس کا مستقبل بے حد روشن ہے۔ اور اس مستقبل کے امین وہ نوجوان اہلِ قلم ہیں جن سے عموماً مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے مگر مجھے ان پر پورا اعتماد ہے۔‘‘
ایوب خاور لکھتے ہیں کہ:
’’اُنہوں نے اپنی زندگی کا بہت سارا حصّہ نوجوان نسل کو بنانے میں صَرف کیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔ اقبال فریدی بھی انہی میں سے تھا۔ ابھی چند سال پہلے تک وہ اس کے بارے میں مجھ سے پوچھتے تھے کہ وہ لڑکا مختلف لکھتا تھا۔ شاعری چھوڑکر برا کیا اُس نے۔
’’میں 1981ء میں لاہور سیٹل ہوا تھا۔ تب سے میں اس معنوی باپ کا خوب صورت، زندگی سے بھر پور، دل و دماغ کو موہ لینے والا بلکہ ہر پل دل کو اپنا عاشق بنا لینے والا جاذب نظر بڑھاپا دیکھ رہا ہوں جو اتنا ہنس مکھ ہے کہ ہمارے سامنے لطیفہ گوئی سے بھی باز نہیں آتا۔ ہم چھوٹے چھوٹے لوگوں میں بڑے بڑے لوگوں کے قصے بانٹ کر وہ ہمارے عمومی روّیوں کی تہذیب کرتے رہتے ہیں۔‘‘
صلاح الدین حیدر کا کہنا ہے کہ:
’’ندیمؔ زندگی کے نئے قافلے کے آثار کو پہچان لیتے تھے اور ہر انسان کو برابری کی سطح پر عزت دینا جانتے تھے۔ اُن کے اس قرینے میں بناوٹ یا وضع داری کی جھلک نظر نہ آتی تھی۔‘‘
ڈاکٹر عبدالکریم خالد لکھتے ہیں:
’’اُردو ادب کی تاریخ میں احمد ندیمؔ قاسمی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے اپنے اظہارِ بیان کے لئے جس صنف کو بھی منتخب کیا، اسے قابلِ اعتبار بنا دیا اس طور پر کہ نئے لکھنے والے ان کے اسلوب میں لکھنا اور ان کے پیرایہء بیان کو اختیار کرنا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ ادب میں اُن کی حیثیت ایک قطب نماکی تھی، جسے دیکھ کر اہلِ فن اپنی سمتیں درست کرتے تھے۔ ایک پورے عہد کا ادبی طرزِ احساس اُن کی ذات سے وابستہ تھا۔‘‘
طاہر سرور میر بتا تے ہیں:
’’ڈاکٹر محمد یونس بٹ نے کہا:’’میں بھی قاسمی صاحب کی ’’پراڈکٹ‘‘ ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میری پہلی کتاب اشاعت کے لئے تیار تھی، قاسمی صاحب نے حوصلہ افزائی کی۔ اس کے فلیپ کے لئے لکھا کہ:’’دوسرے مزاح نگار جو ایک پیرا گراف میں ہنساتے ہیں۔ یونس بٹ ایک جملے میں اتنا گدگداتے ہیں۔‘‘ کیرئیر کا آغاز تھا، قاسمی صاحب جیسے بڑے ادیب کے قلم سے اپنے لئے ان الفاظ کو پڑھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔‘‘
حمید احمد سیٹھی اعتراف کرتے ہیں کہ:
’’قاسمی صاحب کی شفقت، دل جوئی اور محبت کا، اُن کے خلوص اور لحاظ کا اندازہ آج پھر مجھے شدت سے ہوا۔ جب میں نے اپنے پرانے ریکارڈ میں سے 1959-60ء میں اپنے قلم سے لکھے اُن کے تین خطوط نکالے۔ ایک عام سے طالب علم کے نام پورے پورے صفحے کے خط اس طرز میں لکھے ہوئے تھے جیسے ایک اُستاد، ایک باپ ایک محسن، ایک دوست کسی کو سمجھا رہا ہو۔ دُعا دے رہا ہو، اس کی اصلاح اور راہنمائی کرر ہا ہو۔‘‘
اسلام عظمی گواہی دیتے ہیں کہ:
’’ایک بار قاسمی صاحب مشاعرے کی صدارت فرمارہے تھے۔ صاحب نظامت نے اشارہ دیا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے مقامی شاعروں کو نہیں پڑھایا جائے گا۔ قاسمی صاحب کواِس بات کا پتہ چلا تو بولے: ’’مقامی شاعر ہی تو ادب کو زندہ رکھتے ہیں۔ انہیں نہیں پڑھایا گیا تو میں بھی نہیں پڑھوں گا۔‘‘ چنانچہ منتظمیں کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔‘‘
صوفیہ بیدار لکھتی ہیں کہ:
’’میں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی جب اپنی والدہ کے ساتھ کلب روڈ پر جناب قاسمی صاحب کو ان کے دفتر میں دیکھا۔ میں یہ ذرا سی لڑکی، حیران پریشان، اس قدر ادب آداب والے لہجے، مخصوص شاعرانہ آواز والے انسان کو دیکھ رہی تھی۔ ان کے لبوں سے شعر یوں ادا ہو رہے تھے جیسے واقعتاً یہ سلیقہ انہی کا حصہ ہو۔ ایک جاذبیت اور سحر تھا جو کمرے کی فضاء کو باندھے ہوئے تھا کہ اچانک وہ مجھ سے مخاطب ہوئے :’’کیا آپ بھی کچھ کہتی ہیں اپنی والدہ کی طرح؟‘‘ میں سوال سے زیادہ ان کے اس قدر خوب صورتی سے ’’آپ‘‘ کہنے اور عزت بخشنے پر انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ چونک کر بولی ’’جی ابھی تو بس سوچتی رہتی ہوں۔ بہت چھوٹی ہوں لکھنے سے ڈرتی ہوں۔ ‘‘ اُنہوں نے بڑی شفقت سے فرمایا: ’’جب آپ لکھیں گی تمام ڈر بھاگ جائے گا۔‘‘ آج سوچتی ہوں یہ کتنی سچی بات ہے۔‘‘
’’ اُنہوں نے اپنی بیٹی ( ناہید قاسمی) کے فن کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں(لڑکے، لڑکیوں)سے بھی سگی اولاد سے بڑھ کر سلوک کیا۔ دراصل وہ فن کی میراث، فن کے ہی حوالے کرنا چاہتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تحریر کے کچھ حصے ملاحظہ کیجئے:
’’بزرگوں سے مل کر اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو لیکن احمد ندیمؔ قاسمی سینئر نسل کے ایک ایسے گلِ سرسبد تھے جو بیک وقت اگلے وقتوں سے بھی متعلق تھے اور نئی نسلوں سے بھی ان کا رابطہ مضبوط تھا۔ یوں اُن کی حیثیت قدیم اور جدید کے درمیان ایک پُل کی سی بن گئی تھی وہ قدیم، متوسط، جدید اور جدید تر نسلوں کے مسائل و معاملات سے منسلک رہے۔ ان کی شخصیت میں شعروادب، صحافت و سیاست اور مذہب و معاشرت کے ایسے ایسے پہلو مجتمع ہو گئے تھے جن کا امتزاج اب خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے (میرے خط کے جواب میں) علمی دُنیا میں پائی جانے والی عام بے حسی کے برعکس ان کی طرف سے صاف دستِ خط میں سادہ کاغذ پر لکھا ہوا ایک پر خلوص مراسلہ موصول ہوا۔
’’احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کی خدمت میں حاضری ہوئی اپنے سوالات کا جواب چاہا لیکن وہ اس وقت فیض احمد فیضؔ کے چہلم کی تقریب میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ اگر اپنے سوالات لکھ کر چھوڑ جاؤں تو وہ خط کے ذریعے ان کا جواب ضرور دیں گے۔
’’ڈاک کے ذریعے جوابات موصول ہو گئے۔ احمد ندیمؔ قاسمی نے جواب میں لکھا تھا ’’میں یہ تسلیم ہی نہیں کرتا کہ ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں انقلاب آرہا ہے سو میں اسے فکری انتشار نہیں بلکہ نوجوان نسل کے دل و دماغ کا انقلاب قرار دیتا ہوں اور اسلئے مجھے اپنی قوم اور اپنے ملک کا مستقبل خوش گوار اور بھرپور نظرآتا ہے۔ اختلافِ رائے کو انتشار نہیں کہتے، یہ غور کرنے، فکر کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کا عمل ہوتا ہے ہماری نوجوان نسل بحیثیت مجموعی، رجعت پسند نہیں ہے بلکہ وقت سے آگے بڑھ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس لئے ہمارا مستقبل مخدوش نہیں ہے۔‘‘
ایک جلسۂ تقسیمء اسناد وانعامات کی تقریب میں ندیمؔ صاحب کے نوجوانوں سے خطاب کا ایک ا قتباس دیکھیئے:
’’مجھے جب بھی نوجوانوں کے کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی عزت حاصل ہوئی ہے، مجھے ہمیشہ یوں محسوس ہوا ہے جیسے میں اپنے مستقبل سے مخاطب ہوں۔ آپ کی سرگرمیاں، آپ کا ذوق وشوق، زندگی کے بارے میں آپ کے اندازے ا ور نظریئے، اپنے سے بڑوں اور اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ، اپنے ملک اور اپنی زمین کے بارے میں آپ کا نقطہء نظر، یہ سب چیزیں مجھے اپنے مستقبل کے خدوخال کو واضح کرنے اور انہیں متعین کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ پھر جب میں ’’اپنے مستقبل‘‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہوں تو ان کا مطلب میری ذات کا مستقبل نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ بلکہ پوری قوم سے، بلکہ پوری انسانیت سے ہے۔ اس طرح وقت نے ایک بہت بڑی امانت آپ کی تحویل میں دے دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ صحیح معنوں میں ذمہ دار، امین اور دیانت دار ثابت ہوں گے اور جب بھی کوئی فیصلہ کریں گے تو اس جذبے کے تحت کریں گے کہ یہ صرف آپ کا فیصلہ نہیں، ہمارے پورے مستقبل کا فیصلہ ہے۔‘‘
’’ہماری نسل کے سپرد یہ کام تھا کہ ہم غیر ملکی سامراج سے آزادی حاصل کریں۔ یہ کام ہم نے حسبِ استطاعت مکمل کرلیا۔ اب آپ کی نسل کے ذمے اس کی آزادی کے تحفظ کا کام ہے اور یہ کام ہمارے کام سے کہیں زیادہ مشکل ہے مگر مجھے اعتماد ہے کہ آپ بھی ہماری طرح سُر خرو ہوں گے۔‘‘
آخر میں ایک کڑے سوال کا جواب ملاحظہ کیجئیے۔ 1990ء کی ایک کانفرنس میں سامعین کے سامنے احمد ندیمؔ قاسمی سے سوال کیا گیا کہ:’’قاسمی صاحب!آپ کے دامن پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ آپ بہت سی کتابوں کے کور اور فلیپ لکھ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ ؟ ندیمؔ صاحب نے جواب دیا:
’’آپ کا الزام بجا ہے مجھے تو بعض حلقوں میں فلیپ نگار کہا جاتا ہے۔ ایک بار میرے ایک عزیز دوست نے کتاب کے اجراء کے وقت، جبکہ صدارت میں ہی کررہا تھا، کہا کہ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا فلیپ قاسمی صاحب نے نہیں لکھا۔‘‘
’’میرا نقطہء نظر، یہ ہے کہ میں دریا کے کنارے بیٹھا ہوں۔ چھاننی میرے ہاتھ میں ہے۔ میں ریت کو چھان رہا ہوں۔ جب سونے کے ذرات ملتے ہیں تو دوسروں کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ پچھلے تیس برس سے’’فنون‘‘ نکال رہا ہوں۔ ایک سو سے زیادہ شاعر اور افسانہ نگار متعارف کروا چُکا ہوں، جو اَب ادبی دُنیا میں مانے جاتے ہیں۔ میں جب فلیپ لکھتا ہوں تو جھوٹ نہیں لکھتا۔ (کسی نہ کسی طرح سچ ضرور کہہ ہی دیتا ہوں اور سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں)‘‘
اور ناہید قاسمی نے گواہی دی:
’’وہ ہمیشہ کہتے کہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں اور یہی تو ہمارا آنے والا کل ہیں جبکہ ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ سراپا اُمید تھے۔
روز اِک نیا سورج ہے تیری عطاؤں میں
اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ آرزوئیں اور اُمیدیں
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
’’ندیمؔ‘‘
ندیمؔ صاحب جب اپنے پُر تاثیر الفاظ میں یوں اظہارِ آرزو کرتے ہیں تو ان کی سچی تڑپ دل موہ لیتی ہے:
’’جب ادیب چاہتے ہیں کہ اس مملکت کی حیثیت مثالی ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مملکت سے محبت کرتے ہیں اور اسی محبت کی بناء پر وہ اسے سر بلند اور با وقار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ادیبوں کو اپنے قومی مسائل کی اہمیت کا بدرجہء اتم احساس بھی ہوتا ہے اور ان مسائل سے تخلیقی سطح پر نمٹنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے وہ تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ یہ مملکت ایسی ہو جس میں ان کے سُہانے خواب حقیقت بن کر پنپ سکیں۔ جہاں کا ایک ایک فرد خود کفیل اور خوش حال ہو اور مادی اور روحانی استحصال سے محفوظ ہو، جہاں کوئی کسی کا محتاج نہ ہو، کوئی بھوکا نہ ہو، کوئی بے روز گار نہ ہو، کوئی بیمار علاج سے اور کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہو۔ جہاں کوئی کسی کا حق نہ ہتھیا سکے، جہاں نفرت کی بجائے محبت کا راج ہو، جہاں فرقہ پرستی کی بجائے بھائی چارے کی فضاء ہو، جہاں منافقت نہ ہو، دشنام بازی اور بہتان طرازی نہ ہو، جہاں کشیدگی کی بجائے باہمی تعاون کار فرما ہو، جہاں بے مقصدیت کی بجائے وہ مثبت مقاصد پروان چڑھیں جن کا ایک واضح رُخ اور ایک متعین جہت ہو اور جن کا سفر ارتقائی ہو، جہاں مادی اور قلبی اور روحانی سکون ہو اور جہاں تنقید کی آزادی ہو اور یہ تنقید برداشت کی جاتی ہو۔ جہاں زندگی کا ڈھرا ایسا ہو کہ سب انسان بہترین اخلاقی اُصولوں کے مطابق زندہ رہیں اور یہ اُصول ان لوگوں کے ایمان اور عقیدے اور مقدس قدروں اور بلند تہذیبی معیاروں کی برکت سے، ان کے اندر سے، ان کے ضمیر کی گہرائیوں سے، ان کی نفسیات و عادات کا قدرتی حصہ بن کر، ان کی شخصیت میں رچ بس کر خود بخود بے ساختگی کے ساتھ، یوں پھوٹیں جیسے کہسار سے جھرنے پھوٹتے ہیں۔ یعنی یہ سب کچھ ان پر بحکم عائد ہونے کی بجائے ان کے دلوں اور دماغوں میں اُترا ہوا ہو اور یہ تعلیم سے ممکن ہے، تربیت سے ممکن ہے، پاکیزہ اور پُر سکون ماحول سے ممکن ہے، چھوٹوں کے سامنے بڑوں کے، ایک مثال بن کر زندہ رہنے سے ممکن ہے اور صرف ایسی فضاء میں ممکن ہے جہاں ذاتی مفادات پر قومی اور مملکتی مفادات کو بہر صورت اور بہر حالت صد فی صد فوقیت حاصل ہو۔‘‘
ایک انٹرویو میں معاشرے پر ادب کے اثرات کے حوالے سے ندیمؔ صاحب کہتے ہیں:
’’جہاں تک عوام کا تعلق ہے ہمارے ہاں خواندگی بارہ چودہ فی صد سے زیادہ نہیں ان میں سے بھی دس فی صد کو اردو کتاب تو پڑھنا کیا دیکھنا بھی گوارا نہیں۔ باقی رہ گئے دو چار فی صد، وہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ ہیں جو کتاب خرید کر پڑھتے ہیں لیکن کتابیں بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس طرح بھلا ہم (ادیب شاعر) کیا انقلاب لائیں گے۔ جب تک تعلیم عام نہیں ہو گی اور عوام ہماری تحریر نہیں پڑھیں گے، ہم ان کی سوچ پر کس طرح اثر انداز ہوں گے۔‘‘
ندیمؔ نوجوانوں سے اپنی تمنا کا اظہاراس طرح کرتے ہیں:
’’آئندہ زندگی میں آپ کا طریقہء کار ایسا ہوکہ آپ میں سے ایک ایک فرد پر ہماری پوری تاریخ فخر کر سکے، کرّہء ارض پر آج جو شکست خوردگی اور خوف زدگی سے پیدا ہونے والی تحریکیں چل رہی ہیں، ان سے ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھئے گا، کیونکہ آپ ایک ایسی قوم کے فرد ہیں جسے مایوس ہونا آتا ہی نہیں ہے اور جسے خوف و شکست کی عیاشی میں مبتلا ہونے کی بجائے سعی اور کوشش سے زندگی کو زندہ رہنے کے قابل بنانا ہے۔‘‘
ایک اور آرزو جس کا ندیمؔ صاحب نے اکثر جگہ ذکر کیا ہے، وہ ہے کہ:
’’اس آخری عمر میں ایک منصوبہ میرے ذہن میں ہے کہ اپنے گاؤں چلا جاؤں گا۔ وہاں ایک ننھے سے پرسکون مکان کی کھڑکی کے پاس بیٹھ کر کم سے کم ایک ناول اور ایک طویل نظم اور اپنی سوانح ضرور لکھوں گا۔ ملک الموت سے مجھے بس اتنی مہلت درکار ہے مگر وہ کسی کی کہاں سنتا ہے۔‘‘
ندیمؔ کی مانگ یہ بھی ہے کہ :
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اِذنِ کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
اور اُن کی یہ بھی تمنا ہے کہ :
گل ترے دل میں کِھلیں اور مہک جاؤں میں
اسی رشتے میں ہر انساں کو پرونا چاہوں
ساتھ ہی ہمارے اِس دانش ور درویش نے یہ بھی بتا رکھا ہے کہ:
’’قدرت نے دیانت اور محبت کو میرے وجود میں خون کی طرح رواں رکھا ہے۔ سو میں ذہنی اور روحانی طور پر بحمداللہ آسودہ شخص ہوں۔ بعض تشنہ آرزؤوں کے باوجود آرزو کرنا انسان کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آرزو کا پورا ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی واضح کردوں کہ بعض ہم عصروں کی طرح میں نے انسانوں کو دوسرے درجے کی مخلوق کبھی نہیں سمجھا۔ میرے نزدیک تو انسان ہر مخلوق سے اشرف اور افضل ہے۔ اسی طرح میں نے انسان کے بہر صورت مر جانے کے دُکھ سے خوف زدہ ہو کر انسانی زندگی کو لایعنی اور بے معنی کبھی قرار نہیں دیا کیونکہ میرے نقطہء نظر کے مطابق تو جہاں سے شاخ ٹوٹی ہے وہیں سے شاخ پھوٹی ہے اور یہ تسلسلِ حیات بنی نوع انسان کی فنا کی نفی کرتا ہے۔‘‘
اور سول سروس اکیڈمی لاہور کے طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ:
’’آرزو اگر تھی تو یہ تھی کہ میں انسانی برادری کو بے احتیاج دیکھوں اور وہ کسی کی محتاج نہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا وقت ضرور آئے گا جب ہر انسان باوقار قرار پائے گا۔‘‘
ندیمؔ اُداسی
بڑوں کے دُکھ بھی بڑے ہوتے ہیں۔ ندیمؔ ان کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتے آئے تھے کیونکہ ایک تو وہ بے حد رجائیت پسند تھے اور دوسرا ان سے پیار کرنے والے بہت تھے۔ البتہ آخری آٹھ دس برسوں میں پیار کرنے والوں کے دائرے کے اندر چاہنے والوں کی ایک اور چار دیواری بن گئی جس میں انہیں محدود کر کے رکھنے کی اور ایک طرح سے تنہا کر دینے کی کوشش کی گئی۔ وہ یہ سب بھی اچھی طرح جان گئے تھے۔ اس لئے ظاہر کئے بغیر دُکھی تھے۔
احمد عقیل روبی نے کہا:
’’میری نظر احمد ندیمؔ قاسمی کے اندر چھپے بیٹھے کشتہء رنج والم پر ہے۔ وہ ازل سے دُکھ جھیلنے والا آدمی ہے۔ جو کچھ نہیں کہتا۔ دُکھ ندیمؔ صاحب کے رگ و پے میں خون کی طرح سرائیت کر گیا ہے۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے، فن کار جس کا اظہار ساری عمر نہیں کرتا۔ اظہار کے مختلف پیرائے میں سب کچھ تو کہہ دیتا ہے لیکن اصل پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ ساری عمر خود اس دکھ کی دھیمی دھیمی آگ میں جلتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ (اظہار) میں کبھی سماجی اور معاشرتی دیواریں اس کا راستہ روک لیتی ہیں اور کبھی اسے کوئی محرم راز نہیں ملتا اور وہ شاہ حسین کی طرح بے چین رہتا ہے۔ ’’ مائے نی میں کینوں آکھاں‘‘ احمد ندیمؔ قاسمی دکھ کی یہ دھونی اپنے ساتھ ساتھ لے کر پھرتے ہیں مگر مجال ہے اس کی آنچ دوسرے تک پہنچے۔‘‘
مسعود اشعر بتاتے ہیں کہ:
’’قاسمی صاحب کے اور بھی غصے ہم نے دیکھے مگر جس غصے نے انہیں آخری عمر میں بہت تنگ کیا، وہ مجلسِ ترقیء ادب کی عمارت کے سلسلے میں تھا۔ یہ غصہ انہیں اس وقت آیا جب نظریہء پاکستان ٹرسٹ کے ٹھیکیداروں نے نرسنگھ داس گارڈن کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی تھی انہوں نے نرسنگھ داس گارڈن کی اہمیت اور اس کی خوب صورتی کا خیال کئے بغیر اس پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی اور ایک دن انہوں نے مال روڈ کے ساتھ ملنے والے باغ کے حصے پر قبضہ بھی کر لیا اور وہاں عمارت بنانا شروع کردی قاسمی صاحب اس کے خلاف کھڑے ہو گئے، اُن کی مخالفت اُصولی تھی لیکن حکومت اپنے اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھول چکی تھی ظاہر ہے اس کوٹھی کے ساتھ قاسمی صاحب کا اپنا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں تھا۔ وہ تو ایک اُصول کے لئے لڑ رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی نوکر شاہی قاسمی صاحب کے خلاف ہو گئی۔ بھلا افسر یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ کوئی ان کے راستے کی رکاوٹ بنے اور افسر حکومت کے ملازم ہوتے ہیں، جو بھی اقتدار میں ہو گا وہ اسی کی مانیں گے اس لئے میرا تو خیال یہ ہے کہ بعد میں مجلسِ ترقیء ادب کی سربراہی کے سلسلے میں سرکاری افسروں نے قاسمی صاحب کو جس طرح تنگ کیا، اس کی وجہ بھی یہی تھی۔‘‘
ڈاکٹر سلیم اختر کے خیال میں:
’’قاسمی صاحب کو دکھوں، پریشانیوں، آزردگیوں اور دل آزاریوں کا خاصا حصہ ملا لیکن انہوں نے ان سب کو اپنے باطن میں چھپائے رکھا، کسی دوست یا ملاقاتی کے سامنے کبھی بھی شکوہ سنج ہوئے نہ تلخ گفتار۔‘‘
علی اصغر عباس لکھتے ہیں:
’’انہوں نے تمام عمر انسانوں ہی سے نہیں، ان کی خطاؤں سے بھی پیار کیا۔ وہ کبھی کسی سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے ان کے ناک میں دم کر رکھا تھا مگر ان کو بھی کچھ نہیں کہا۔ اگر اظہار کیا بھی تو سنبھلے لفظوں میں۔‘‘
حمید احمد سیٹھی کا کہنا ہے:
’’خوش ہوتے تو ان کی نظریں بھی بولتی تھیں، تکلیف، تنگی اور غصے میں بھی پریشانی کا اظہار نہ کرتے۔ انہیں دکھ تھا کہ کچھ عرصہ قبل بعض سرکاری افسروں نے انہیں بھی گریڈوں میں تولنے کی کوشش کی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے مقام اور مرتبے تک تو سرکاری گریڈ ہی ختم ہوجاتے تھے۔‘‘
مسعود مفتی بتاتے ہیں:
’’جون 2006ء کا مہینہ، دوپہر کا وقت، اپنا نیا افسانوی مجموعہ (’’توبہ‘‘) پیش کرنے کے لئے جب میں قاسمی صاحب کے دفتر میں داخل ہوا تو وہ بالکل اکیلے بیٹھے تھے۔ بہت ہی نحیف ولاغر۔ دھیمی آواز۔ مگر چاق وچوبند، فون پر بھی اور میرے ساتھ گفتگو میں بھی۔ کتاب کے مندرجات کی فہرست پر نظر دوڑائی تو کہنے لگے:’’ان میں سے بیشتر تو ’’فنون‘‘ میں شائع ہوئے تھے۔‘‘ پھر بولے ’’آپ کو میرا خط مل گیا تھا نا!‘‘ کہنے لگے۔’’یہ افسانہ ’’آسیب‘‘ پڑھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ اس لئے ہوا کہ آپ کے رونگٹے ابھی قائم ہیں۔ ورنہ قوم کے رونگٹے تو عرصہ سے غائب ہو چکے ہیں۔‘‘ سر ہلا کر بولے ’’واقعی! ہم جیسے لوگ جنہوں نے تحریکِ پاکستان کا جوش اور ولولہ دیکھا ہے۔ اب حیران ہوتے ہیں کہ یہی قوم پچاس ساٹھ برس میں اتنی بے حس کیسے ہو گئی!‘‘
’’ پچھلے بیالیس برس کے دوران میں نے ان کے لہجے میں درد کی یہ شدت اور شکایت کا یہ انداز کسی بھی بات پر کبھی نہ دیکھا تھا۔ ان کے چہرے پر لا محدود بے بسی اور کرب کے تاثرات دیکھ کر مجھے لگا جیسے وہیں بیٹھے بیٹھے وہ اسی دم بالکل اسی انداز میں میرے افسانے کا مرکزی کردار بن گئے تھے۔‘‘
شبنم شکیل لکھتی ہیں:
’’دُنیا میں اہلِ دل نایاب ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ جب یہ احساس شدت اختیار کر لیتا ہے تو قاسمی صاحب کے پاس جا بیٹھی ہوں۔ اپنی کہنے کے لئے، اپنے مسائل انہیں جا کر سنا آتی ہوں۔ وہ میری بات سن لیتے ہیں۔ خدا جانے میرے علاوہ اور کتنے لوگ اپنے دکھ درد ان کو جا کر سناتے ہیں اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے واپس آجاتے ہیں۔ میری طرح سے شاید اور بھی بہت سے ایسے ہوں گے جنہیں یہ احساس کبھی نہیں ہوا ہو گا کہ قاسمی صاحب کے اپنے دکھ درد بھی ہوں گے، ان کے اپنے مسائل بھی ہوں گے۔‘‘
کشور ناہید کہتی ہیں:
’’مجھے یہ بات کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب قاسمی صاحب مجلسِ ترقیء ادب کے نگران بنے تو انہیں اڑھائی ہزار روپے معاوضہ ملا تھا، وہ اُن کے رکشے کے کرائے پر ہی خرچ ہو جاتا اور (ایک موقع پر) انہوں نے جب عملے کو بونس کی رقم دلوائی تواُن کے خلاف انکوائری شروع ہو گئی۔ اس تکلیف دہ رویے کے باعث انہوں نے استعفیٰ دے دیا پھر انہیں بار بار کہا گیا کہ وہ دوبارہ آجائیں۔ پہلے تو وہ نہ مانے لیکن پھر بڑی مشکل سے راضی ہوئے۔‘‘
افضل توصیف اپنے خیالات کو یوں بیان کرتی ہیں:
’’ندیمؔ قاسمی! افسر بننے کی بجائے شاعر ہو گئے، ادیب ہو گئے، ترقی پسند ادب کے مضبوط رکن اور تخلیق کار۔ پھر جب یہ نئی ریاست وجود میں آئی تو بھی جو زخم زخم زندگی انہوں نے دیکھی ہو گی۔ اس کے لئے لکھا پھر بندش اور قید وبند کے زمانے، گھٹن کا ماحول، ادھوری زندگی مگر احمد ندیمؔ قاسمی نے اپنی تخلیقی صلاحیت کو اظہار دینے کے لئے راستے نکالے اور نکالتے ہی رہے۔ شاعری، کہانی، مضمون، کالم، تحریر، تقریر، ریڈیو، ٹی ۔ وی سب کچھ۔‘‘
عطاالحق قاسمی بتاتے ہیں:
’’میں نے انہیں دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تو دیکھا لیکن اپنی کوئی پریشانی، اپنے احباب کو منتقل کرتے کبھی نہیں پایا۔‘‘
حسن نثار نے لکھا:
’’میرا احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کے ساتھ عجیب سا رشتہ رہا انہیں اندازہ تھا کہ میرے دل میں ان کے لئے عقیدت تھی۔ جواباً وہ مجھے ہمیشہ اپنی محبت سے نوازتے پھر ایک مرحلہ پر سرکاری سطح پر اُن کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہوئی۔ اہلِ فن، اہلِ دل، اہلِ دماغ نے احتجاج کے لئے ’’شیزان‘‘ میں اکٹھ رکھا اور مجھے بھی مقررین میں شامل کر لیا۔ بہت سے شرکاء تھے میں نے تقریر تو خاک کرنا تھی، صرف اتنا کہا کہ:’’اگر احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کے ساتھ ان کے شایان شان سلوک نہ کیا گیا تو میں خود سوزی کی حد تک بھی جاؤں گا‘‘۔
دانش ور اور کالم نگار ہارون رشید لکھتے ہیں:
’’احمد ندیمؔ قاسمی کا اپنا قبیلہ (شاعر، ادیب، صحافی) ایک چڑیل کی طرح اُن کا کلیجہ نوچنے اور چبانے کی کوشش کرتا رہا اور وہ زندہ رہے۔
دستک سے دستِ فن کو نہ آلودہ کر ندیم
سب جا رہے ہیں جانبِ در، توُ مگر نہ جا
شہرت کی طرح اس کا رزق بھی اس کے قلم اور ہنر کی عطا تھا۔ اللہ کی عطا، جو لوگ یہ بات نہیں جانتے، وہ کچھ بھی نہیں جانتے ۔۔۔۔۔ احمد ندیمؔ قاسمی ان لوگوں کے درمیان جیئے مگر وہ اُن میں سے ایک نہیں تھے۔‘‘
جبکہ ندیم اپنی ذات کی بجائے دوسروں کے لئے اُداس ہیں۔ کہتے ہیں:
’’میں نے شدید حالات میں بھی نہایت مطمئن زندگی گزاری ہے۔ دراصل میں نے جو کچھ لکھا ہے اور جو کام کئے ہیں وہ اپنے ضمیر کی رہنمائی میں کئے ہیں اور ضمیر کے اطمینان سے بڑی نعمت کے بارے میں سو چا بھی نہیں جا سکتا۔ مجھے اگر کوئی قلق ہے تو صرف یہ کہ انسانوں کو ان کا وقار واپس نہیں مل رہا اور کرّہ ارض کی ہر حکومت انہیں بے وقار کئے جا رہی ہے۔‘‘
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں
’’ندیمؔ‘‘
ندیم ؔ آخری عرصہء حیات
کُوچ کے حکم کا امکان ہے ہر ہر لمحہ
روز اوّل سے بندھا رکھا ہے بستر اپنا
’’ندیمؔ‘‘
ڈاکٹر خورشید رضوی بتاتے ہیں:
’’تین جولائی 2006ء کی اُس ملاقات کا تصّور آج بھی میرے ذہن میں جوں کا توں ہے۔ وہ کمرہ آج بھی ویسا ہی ہے اور قاسمی صاحب اپنی نشست پر اُسی طرح بیٹھے ہیں۔ ضعف پیری کے باوجود شگفتہ اور حاضردماغ۔ اُس روز بھی وہ ہمیشہ کی طرح مجھے دیکھ کر مسکرائے اور اُٹھ کر مصافحہ کیا انہوں نے بتایا کہ ’’صحت کے نشیب و فراز اب بہت غیر یقینی سے ہو گئے ہیں۔ کسی بھی وقت اچانک ہسپتال جانا پڑجاتا ہے۔ سانس کی آمد و رفت بحال ہو جاتی ہے تو واپس آجاتا ہوں۔ خیر آج تو بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔ اس آخری جملے میں وہ پرانے قاسمی صاحب لوٹ آئے جو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔ آخر آخر میں البتہ اتنا فرق آگیا تھا کہ جب صحت کے بارے میں پوچھا جاتا توکہتے:’’بس جیسی اس عمر میں ہونی چاہیئے۔ الحمداللہ میں ٹھیک ہوں۔
’’(تنفس کی تکلیف پریشان کرنے لگی تھی لیکن) وہ مشاعروں میں شروع سے آخر تک آلتی پالتی مارے، بغیر ٹیک لگائے، سیدھے بیٹھے رہتے تھے۔ اُٹھتے ہوئے کسی کا سہارا لینا بھی پسند نہ تھا۔
’’اور بھی تصویریں اُمڈی چلی آتی ہیں ۔۔۔۔۔ ان قاشوں سے جڑ کر ایک بڑی تصویر بنتی ہے جو ذہانت، تخلیقیت، محنت، دیانت، انسانیت، رواداری، دردمندی، ہمدردی، بذلہ سنجی اور رجائیت کے آمیزے سے عبارت ہے۔
’’قاسمی صاحب ایک انتھک انسان تھے۔ وہ آخری زمانے تک دن بھر محنت میں لگے رہتے۔ وقت کی تنظیم “ٹائم مینجمینٹ” کا اُن میں فطری ملکہ تھا۔ وہ مصروف نظر آئے بغیر مصروف رہ سکتے تھے میں نے کئی بار دیکھا کہ لطیفوں اور خوش گپیوں کے عین درمیان، جہاں اہلِ محفل ذرا دیر کو باہمی مکالمے میں مصروف ہوئے، قاسمی صاحب نے اُسی طائرانہ جبلت کے ساتھ، میز پر بکھری ہوئی چیزوں کو ترتیب دے لیا۔ ڈاک پر ایک نظر ڈالی۔ اس کی صف بندی کرلی اور شاید ایک آدھ خط کا مختصر سا جواب بھی لکھ ڈالا۔‘‘
’’قاسمی صاحب کا دل گویا ایک ورلڈ بینک ہے۔ جس میں ان گنت لاکر سجے ہوئے ہیں اور ہر ایک میں ایک اور صرف ایک شخص کا سرمایہء تعلق محفوظ ہے اور اس بینک کا نظام گویا کمپیوٹرائزڈ ہے۔ ادھر کوئی شخص سامنے آیا ادھر فی الفور اس کا مخصوص اثاثہ کھلا۔ یہ زندہ کمپیوٹر ان اثاثوں کو کبھی غلط ملط نہیں ہونے دیتا۔ اس دور میں گردوپیش کی اتنی درست اور ایسی “کوئک اپریزل” بھی میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے۔‘‘
مسعود اشعر نے تحریر کیا ہے کہ:
’’میرے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اُن سے آخری ملاقات ہوگی۔ میں اور کاظم صاحب حسبِ معمول انہیں سلام کرنے مجلسِ ترقیء ادب کے دفتر گئے تھے۔ ہم مہینے میں ایک دو بار ان کے پاس ضرور جاتے۔ نہ جاتے تو ان کا فون آ جاتا۔ وہ شکایت کرتے کہ کتنے دن سے نہیں آئے تم، خیریت تو ہے؟ تمام کڑوی کسیلی باتوں کے باوجود ان کے مزاج میں کوئی کڑواہٹ نہیں آئی تھی۔ ہم جب بھی اُن کے پاس جاتے، وہ اسی خوش گوار موڈ میں نظر آتے۔ ان کا ہنسی مذاق اور ان کے لطیفے اسی طرح چلتے رہتے لیکن اس دن وہ واقعی بہت بے چین تھے۔ فراز نے ہنسی مذاق کرنے کی کوشش بھی کی مگر اُن کے چہرے سے پریشانی دور نہیں ہوئی۔ وہ باربار کرسی سے اُٹھنے کی کوشش میں تھے اورآخر وہ کھڑے ہوئے، کہنے لگے:’’آپ لوگ بیٹھیں، میں ڈینٹل سرجن کے پاس جارہا ہوں۔‘‘ اور وہ چلے گئے میرے دماغ پر وہ منظر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گیا جب وہ ذرا سے جھکے ہوئے اپنے کمرے سے باہر جارہے تھے۔‘‘
مقصود الہیٰ شیخ نے لکھا ہے:
’’اُنہوں نے عمرِ عزیز (نوّے سال) کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا جوانی میں باشعور انسان محنت کرتے ہیں، کر سکتے ہیں مگر بڑھاپے میں جب قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں، قلب و ذہن متاثر ہو جاتے ہیں، ہوش و حواس میں رہ کر تخلیقی کام کرنا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ احمد ندیمؔ قاسمی صاحب وہ خوش نصیب انسان ہیں جو آخر وقت تک ہوش وحواس میں رہے۔‘‘
فتح محمد ملک کے خیال میں:
’’وہ ایک عجب نشاط کے عالم میں موت کے لئے خود کو تیار کرنے میں مصروف تھے۔ ندیمؔ مرنے کو مٹنے کے مصداق نہیں مانتے اور بڑے تیقن کے ساتھ اعلان کرتے ہیں:
میں روشنی کے تسلسل کو ٹوٹنے ہی نہ دوں
میں شمع بن کے بجھوں، آفتاب بن کے جلوں‘‘
شکیلہ رفیق بتاتی ہیں کہ:
’’اتفاق سے ابھی چند روز قبل ہی میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ آواز کم زور تھی مگر ارادے، ویسے ہی توانا! انہیں زندگی کرنے کا فن آتا تھا۔ اسی لئے اُنہوں نے زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا اور اسے بھر پور طور سے برتا، جس کا ثبوت، ان کا آخری کالم ہے جو 7 جولائی،2006ء کو شائع ہوا۔‘‘
ڈاکٹر خالد عبدالکریم لکھتے ہیں کہ:
’’وہ دمے کے مرض کی شدت کے باوجود بیماری کے سامنے سینہ سپر رہے اور اپنی زبردست خود اعتمادی کے بل پر نہ صرف ادبی محافل کی رونق بڑھاتے رہے بلکہ تخلیقی اعتبار سے بھی شادابیء ذہن کے ساتھ اُردو ادب میں گراں قدر اضافے کرتے رہے۔ اُنہوں نے آخر وقت تک خود کو اتنا مستعد اور فعال رکھا کہ وفات سے چند روز قبل تک مجلسِ ترقیء ادب کے دفتر میں کام میں مصروف رہے۔‘‘
بالاکوٹ سے ہارون الرشید نے لکھا ہے کہ:
’’اس سال جنوری میں لاہور گیا۔ ان کے دفتر کے باہر چپڑاسی کھڑا تھا اس نے اندر جانے سے منع نہیں کیا۔ بابا بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ میں اُن سے بغل گیر ہوا تو یہ دیکھ کر کانپ گیا کہ ان کا جسم کم زور لگ رہا تھا، البتہ اُن کے چہرے پر وہی لازوال مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ میں نے کہا: ’’بابا!آپ بہت کم زور ہو گئے ہیں۔‘‘ کہنے لگے: ’’کوئی بات نہیں بس دُعا کریں۔‘‘
عرفان جاوید تفصیل بتاتے ہیں کہ:
’’میں بغیر دروازہ کھٹکھٹائے ان کے دفتر میں داخل ہوا تو وہ کوئی مسودہ پڑھنے میں منہمک تھے۔ وقت اس کمرے میں تھم چکا تھا قاسمی صاحب سر جھکائے کسی مسودے میں گم تھے۔ یہ ایک قدیم طرزِ تعمیر والا وسیع کمرہ تھا۔ اونچی چھت اور روشن دانوں والا، کمرے میں قدامت کی ایک مقدس باس تھی دائیں جانب ایک کھڑکی تھی جو ایک سر سبز باغیچے میں کھلتی تھی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کی نغمگی کمرے میں نرم نرم موسیقی کی صورت آتی تھی مگر یہ سب اُن کے استغراق میں حائل نہ ہو رہا تھا۔ میں زور سے کھنکھارا۔ اس پر قاسمی صاحب نے مسودے سے نظریں اُٹھائیں اور مجھے دیکھا۔ یک دم شناسائی اور مسکراہٹ ایک شفیق روشنی کی طرح ان کے چہرے پرپھیل گئی۔ کچھ دیر مسکراتے رہے پھر بولے:’’آپ تو بالکل ہی لاپتہ ہو گئے۔ میں تو پریشان ہو گیا تھا کہ خیریت ہو۔ پہلے تو بہت باقاعدگی سے رابطہ تھا مگر اب کافی دنوں کے بعد تشریف لائے ہیں۔‘‘ یہ تاریخ تھی جولائی کی چار اور سن تھا 2006ء اور پھر 8 جولائی کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں، میں فرطِ عقیدت سے اُن کے قریب ہوا اور اُن کے ہاتھ کو چوم لیا۔ اُنہوں نے مضبوط گرفت کے ساتھ میرے ہاتھوں کو دبایا اور ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر تازہ صبح کی مقدس روشنی کی طرح پھیل گئی ۔‘‘
’’فنون‘‘ کے کمپوزر اپنے مشاہدات یوں بیان کرتے ہیں:
’’اگرچہ قاسمی صاحب کا تعلق کتابت کے دور سے تھا مگر وہ کمپیوٹر سے جلد ہی ہم آہنگ ہو چکے تھے اُس کی تمام فنی باتوں کو وہ اس طرح سمجھ لیتے تھے جیسے وہ کمپیوٹر چلانا جانتے ہوں۔ حالانکہ وہ کسرِ نفسی سے یہی کہتے رہے کہ میں کمپیوٹر کے دور کا نہیں ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کمپیوٹر کے دور سے بھی آگے کے تھے۔
’’سب سے بڑھ کر حیرت اس بات پر ہوتی کہ وہ ضعیف العمری میں بھی نوجوانوں کی طرح کام کرتے تھے اور کبھی ہمت نہیں ہارتے تھے۔ اپنے آخری ایامِ زندگی میں بھی وہ اُسی طرح کام کرتے رہے تھے آپ بے شمار خطوں کے جواب روزانہ لکھتے۔ حتیٰ کہ آخری ایّام میں بھی آپ نے کئی خط لکھے۔ قاسمی صاحب صبح سے لے کر شام تک دفتر میں موجود رہتے۔ کبھی مجلس کے دفتر میں تو کبھی ’’فنون‘‘ کے دفتر میں مگر حیرت ہوتی جب وہ دیگر مسودوں کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقات کے مسودے بھی میرے حوالے کر دیتے۔ میں اکثر سوچتا کہ صبح سے شام تک تو وہ دفتر کی ہنگامہ آرائیوں میں اُلجھے رہتے ہیں، پھر کون سا وقت ہے جب وہ پُرسکون ہو کر اپنی تخلیقات کے لئے وقت نکال پاتے ہیں!
’’فنون کے دفتر میں سب سے عمدہ وقت وہ ہوتا جب سب لوگ چائے کے لئے اُن کے کمرے میں اکٹھے ہوتے۔ شام کی چائے قاسمی صاحب تمام سٹاف کے ساتھ پیتے تھے۔ اس وقفے میں وہ اپنی زندگی کے نہایت دلچسپ واقعات، لطیفے اور چٹکلے سناتے اور سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہتے۔ قاسمی صاحب خود صرف مسکراتے تھے اور دوسروں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے نہ چاہتے ہوئے بھی چائے کا یہ وقفہ ختم ہو جاتا مگر اُس وقت تک ہم بالکل تازہ دم ہو چکے ہوتے۔‘‘
عطاالحق قاسمی بتاتے ہیں:
’’رمضان کا مہینہ ہے۔ میں لاہور میں ندیمؔ صاحب کے دفتر جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہ بیٹھے سلاد کاٹ رہے ہیں۔ میں حیران ہو کر پوچھتا ہوں کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ندیمؔ صاحب بتاتے ہیں ’’میرے ایک پارسی دوست فیروز سنز میں کام کرتے ہیں۔ سارا شہر بند ہے۔ وہ بوڑھے آدمی ہیں۔ میں ان کے لئے کھانا گھر سے لایا ہوں اور اب ان کے لئے سلاد کاٹ رہا ہوں۔‘‘
بھارت سے ڈاکٹر کیول دھر نے لکھا ہے کہ:
’’20 مئی 2006ء کی صبح کو ہم لاہور میں اُن کے روبرو تھے عمر اور علالت کا اثر اُن کے چہرے پر نمایا ں تھا لیکن ان کی آنکھوں کی چمک اور آواز کی کھنک ان کے حوصلے کو نمایاں کررہی تھی۔‘‘
سلمیٰ صدیقی جو محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب میں ایک افسر رہیں، لکھتی ہیں:
’’اپنی تعیناتی کے دوران مجھے شدت سے ان رویوں کی بد صورتی کا احساس ہوا جوسرکاری ادارے قاسمی صاحب جیسے لوگوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ وہ شخص جس نے اُردو زبان و ادب کی تہذیب کی، جس نے بے شمار لکھنے والوں کی کھیپ تیار کی، اپنی بیش قیمت تحریروں کا سرمایہ دیا، جو کئی نسلوں کے لئے آئندہ بھی مفید رہے گا۔ اُس کے ساتھ ہم نے کیسے ناروا رویے اختیار کئے۔ ذکر کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔‘‘
’’اپنی ملازمتی ذمہ داریوں کے دوران مجھے فائلوں میں قاسمی صاحب کی محکمہ کے ساتھ خط و کتابت کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ میں سوچا کرتی تھی کہ حساس اور باشعور قاسمی صاحب ان بے حس، بے رحم اور بے تہذیب باتوں سے کس قدر دل برداشتہ ہوتے ہوں گے لیکن وہ تو ان باتوں سے کہیں بلند ہیں۔ انہوں نے ان خطوط میں نہایت نپے تُلے پُر وقارانداز میں مجلسِ ترقیء ادب کی ضروریات کا ذکر، کام کی روداد، مسائل کے حل میں دیر پر مہذب لفظوں میں ہلکی فہمائش اور آخر میں آئندہ غلطی نہ ہونے کی امید کا اظہارکوئی اُلجھاؤ نہیں کوئی ہیر پھیر نہیں، اور کوئی غیر ضروری بات بھی نہیں ان خطوط کے مضبوط، جرائت مندانہ اور مہذب لہجے کی اہمیت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے بڑے بڑے ناموں کو ہما شما کی خدمت میں حاضری لگاتے اور سرکاری ادروں کی ناخلفی کا انتہائی نامناسب الفاظ میں رونا روتے دیکھا ہو۔ یہاں تو نہایت سمجھ داری اور اعتماد کے ساتھ صورتِ حال کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔ وجہ قاسمی صاحب کا حق پر ہونا تھا۔ ان خطوں کو پڑھنے کے بعد میرے دل میں وہ خلش تو نہیں رہی جو قاسمی صاحب اور ہمارے محکمہ کے درمیان کسی نا خوش گوار صورتِ حال کے بارے میں سُن کر پیدا ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی ایک عجیب سا احساسِ جرم برقرار رہا کہ میں بھی اُسی قبیلے کا فرد ہوں جو قاسمی صاحب کامجرم ہے۔ اسی دوران وہ بیمار ہوئے تو میں شدید خواہش کے باوجود نہ جاسکی کہ میں تو اُن کے پاس بیٹھ کر رونا شروع کردوں گی اور روتی ہی رہوں گی۔‘‘
رضوانہ سیّد علی حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ:
’’آخری وقت تک ان کی توانائی اور شگفتگی اس حد تک برقرار تھی کہ زندگی کے آخری ہفتے میں بھی اخبار میں اُن کا کالم موجود تھا ۔‘‘
ندیمؔ صاحب کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے بتایا کہ:
’’2006ء کے ماہِ جون نے احمد ندیمؔ قاسمی جیسے عظیم کہسار کو زیادہ تر زلزلے کی سی حالت میں رکھا۔ سخت گرمی اور بار بار کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ابّا جی کی سانس کی تکلیف کا دورانیہ ذرا زیادہ اور ٹھیک رہنے کا وقفہ کچھ کم ہوتا گیا۔ ڈاکٹر محمود ناصر ملک، ہسپتال، گھر ایک دائرہ سا بن گیا۔ اس دائرے کا ایک اہم سٹاپ دفتر بھی تھا۔ وہاں کے معمولات میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ کام ،کام اور کام ساتھ ساتھ مسلسل جاری رہا۔ اس دوران انہیں اپنوں کے سکھ دکھ کابھی خیال رہا، سال گرہوں پر مبارک دینا بھی یاد رہا اور وہ عزیزوں دوستوں کی مزاج پرسی بھی کرتے رہے۔ وہ کلینک میں تھے مگر اپنی طبیعت کے پورے ٹھیک نہ ہونے کے باوجود اپنی بھابھی (ہماری تائی صاحبہ۔ مسز ایم۔بی پیرزادہ) کی تدفین میں شرکت کے لئے میرے بھائی نعمان اور مجھے 29 جون کو وادیء سون سکسیر کے دور دراز گاؤں ’’انگہ‘‘ بھیجا، ہم اسی روز واپس آگئے تو ابّا جی کو بہت بہتر پا کر تسلی ہوئی۔ اس سارے عرصے میں وہ جب بھی بہتر محسوس کرتے، دفتر چلے جاتے اور اپنے کاموں میں لگ جاتے لیکن جمعرات 6 جولائی کو وہ دفتر سے خلافِ معمول جلد لوٹ آئے۔ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔ گھر پر آکسیجن اور نیبولائزر کا انتظام تھا۔ اس کے استعمال سے افاقہ محسوس کیا۔ ہمارے اصرار پر اُنہوں نے جمعہ اور ہفتہ کو چھٹی کر لینے کا ارادہ تو کر لیا لیکن کہا:’’میں گھر پر بھلا کیا کام کروں گا بیٹی؟‘‘ میں نے کہا:’’ابّا جی مجھے کالج سے چھٹیاں ہیں۔ آپ کی میز پر اور شلیف پر بہت سے کاغذ اور خطوط اکھٹے ہو گئے ہیں۔ ہم باپ بیٹی آپ کے کاغذات ترتیب دیں لیں گے۔‘‘ دراصل ابّا جی جیسے ہمہ جہت فن کارکے کاموں کے بہت سے سیکشن تھے جبکہ بے ترتیبی انہیں پسند نہیں تھی۔ جمعے کو ابّا جی نے اپنے نئے مجموعہء کلام اور شخصی خاکوں پر مشتمل اپنی نئی کتاب (’’میرے ہم سفر‘‘ کی دوسری جلد بہ عنوان ’’میرے ہم قدم‘‘) کے مسودے اپنے بیگ سے نکالے۔ ان کے پروف چیک کئے۔ فہرستیں بنوائیں اور کہا:’’اب یہ پرنٹنگ کے لئے تیار ہیں۔ صرف یہ دیکھنا باقی ہے کہ میرا کوئی کلام یا اہم مضمون ان میں شامل ہونے سے رہ تو نہیں گیا۔ دن بھر کی قابلِ رشک اور قابلِ فخر قوتِ ارادی نے ان کا بہت ساتھ دیا۔‘‘
’’(لیکن طبیعت کے نہ سنبھلنے پر ہم انہیں ہسپتال لے گئے۔) ہسپتال میں ڈاکٹرز کی بھر پور توجہ سے اتوار کو ابّا جی خاصے سنبھل گئے۔ مجھے بس یہ لگا کہ باتیں کرتے وقت انہیں ذرا زور لگانا پڑتا تھا۔ ورنہ ان کے کسی بھی عمل سے کم زوری ظاہر نہ ہورہی تھی۔ اُن کے دوست احباب اُن کی مزاج پرسی کے لئے آتے رہے اور وہ ان سے بھرپور انداز میں نہ صرف ہاتھ ملاتے رہے بلکہ مختلف موضوعات پر گفتگو میں بھی شامل رہے (اُن کے پاس ایک وقت میں دو افراد کے رُکنے کی اجازت تھی اور جو باہر انتظار کر رہا ہوتا اُس کی بھی انہیں فکر ہوتی) وہ رات تک ہمیں ہنسانے کے لئے پُر لطف باتیں کرتے رہے۔ اُنہوں نے گھر سے آیا کھانا بھی رغبت کے ساتھ کھایا۔ ہمیں تسّلی تھی کہ بس ایک آدھ دن میں وہ پہلے کی طرح ٹھیک ہو جائیں گے اور حسبِ معمول پہلے ہی کی طرح ہم انہیں ہنستا بولتا ہوا، گھر لے جائیں گے، لیکن ہم اب کی بار جیتے جاگتے ندیمؔ کو گھر نہ لے جاسکے۔‘‘
’’میں نے یہ تفصیل اس لئے لکھی ہے تا کہ آپ کو بتا سکوں کہ سانس کی تکلیف کے باوجود ان کا شعور آخر تک بالکل توانا تھا، ان کا احساس مکمل طور پر زندہ اور ان کا دل اچھی طرح دھڑک رہا تھا۔ اُنہوں نے برداشت کی انتہا کوچُھو لیا۔ دبلے پتلے وجود میں ہمت، حوصلے اور حقیقیت کا بہادری سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نے قوتیں بھر رکھیں تھیں۔ ایک بار بھی مایوسی کا اظہار نہیں کیا نہ ہی محسوس ہونے دیا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ، سانس بہ سانس ہم سے دُور جارہے ہیں۔
’’سوموار10 جولائی 2006ء کی صبح کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کاڈیالوجی لاہور میں میرے ابّا جی کو سی سی یو سے اوپر کی منزل میں آئی سی یو لے جانے کے لئے جب ان کے پہیوں والے بیڈ کو ہسپتال کی بڑی سی نیم قوس بناتی سلائیڈ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو شیشوں کے اس پارکھڑی رہ گئی میں، دھیرے دھیرے پکار رہی تھی۔ ’’ابّا جی! مینڈے آ پڑیں، ابّا جی!‘‘ (ابا جی! میرے اپنے، ابا جی!) تب میں نے ایک انوکھا منظر دیکھا، جو میری یاد میں ہمیشہ کے لئے رہ گیا۔ میں نے ابر آلودہ صبح کی ہلکی سی گلابی روشنی میں دیکھا کہ بڑے سے صاف سھترے سفید بیڈ پر میرے ابّا جی اپنے نیلے سے گرے رنگ کے نفیس لباس میں سیدھے لیٹے تھے۔ ان کا سنجیدہ پُرسکون چہرہ میرے سامنے تھا۔ ان کے سنورے ہوئے سفید بال آہستہ سے لہرارہے تھے۔ وہ اس وقت بہت خوب صورت، بڑے مطمئن اور بیحد پُر وقار دِکھ رہے تھے۔ ایک فاتح کی مانند جیسے پُر سکون نیند میں، دو تین گھنٹے پہلے کی دھیمی دھیمی ہل چل کے اب آثار تک نہ تھے۔ ہسپتال کا عملہ ان کے بیڈ کو سلائیڈ پر اوپر کی طرف ہموار رفتار سے دھکیل رہا تھا اور ہمارے ندیمؔ کا وجود اس زمین سے اُٹھتا، بلندی کی طرف اس نیلے آسمان کی طرف قوس بناتا ہوا اوپر ہی اوپر، اونچے بڑے دروازے کے پار لے جایا جارہا تھا۔ میرا دل تو نہیں مانا مگر میں سمجھ گئی تھی کہ اس لمحے میرے اپنے بہت ہی پیارے ابّا جی سکون اور اطمینان کی کیفیت میں اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں۔ اب ڈاکٹرز صرف اپنے پیشے کا آخری تقاضا پورا کریں گے اور بس! اس پَل اپنے ابّا جی سے جدائی کے شدید دُکھ کی ٹیسیں میرے دل میں کھب گئیں۔
’’آخر میں یہ کہوں گی کہ اُن سے جدا ہونے کا دکھ تو بے انتہا ہے لیکن ہم سب گواہ ہیں کہ وہ بہت ہی اچھے انداز میں نہایت بہادری اور بے حد خوب صورتی سے جیئے ہیں۔
مجھے ان کی گیارہ بارہ برس پہلے کہی ہوئی ایک فکر انگیز نظم ’’آؤ جینے کی کوشش کریں‘‘ یاد آرہی ہے۔ یہ نظم ندیمؔ کے نئے اور آخری مجموعہء کلام’’ارض و سما‘‘ میں شامل ہے۔ اس کے کچھ مصرعے ملاحظہ کیجئے:
آؤ جینے کی کوشش کریں
زندگی موت کی طرح اِک بار ملتی ہے
اِک بار جی بھر کے جی لیں
موت آئے تو ہم زندگی کا سفر ختم کرنے کو تیار بیٹھے ہوں
کوئی تمنا ادھوری نہ ہو
یعنی کچھ اور جینا ضروری نہ ہو!! ‘‘
ندیمؔ کے بعد
پر اَب تیرے جانے کے بعد
ایک ایسی کسک ہے جو اُس دن سے اب تک
مرے دل کی گہرائیوں میں اُتر کر وہیں رُک گئی ہے، وہیں بس گئی ہے
یہ لگتا ہے اب اس کی ٹیسیں مری آخری سانس تک میرے اندر رہیں گی
اگر آہ کا تیر کھینچوں بھی تو کون آگے بڑھے گا؟
اور اپنے حسیں دل پہ لے گا!
کہ اب کون ہے جو تری ہی طرح زخمی پوروں سے کانٹے چُنے
نرم لہجے کی ریشم سی ہمدردی تھپکی کا مرہم رکھے
نہیں اب تیرے جیسا کوئی نہیں!!
(’’تب اور اب‘‘ ناہید قاسمی)
ندیمؔ کی جدائی کے بعد، چاھنے والوں کی کچھ آراء اور تاثرات ذیل میں درج ھیں:
*’’اب سے چند ماہ پہلے صورت یہ تھی کہ ہمارے ادب کے ایوان میں ایک شخصیت صدر نشین تھی، جس کی طرف ہم رجوع کرتے تھے، جو ہمارا “پوائنٹ آف ریفرینس” تھی۔ شاعر ایک غزل یا نظم کہہ کر، مضمون نگار ایک مضمون تیار کر کے، افسانہ نگار ایک نیا افسانہ تخلیق کر کے اور سیّاح سفر نامہ لکھ کر اس کو بھیجتا تھا، اس دُبدھا کے ساتھ کہ پتا نہیں وہ چیز اس شخصیت کے نزدیک قابلِ قبول ٹھہرے گی یا نہیں۔ اور جب اُسے سندِ قبولیت عطا ہو جاتی تو لکھنے والے کو لگتا تھا کہ اس کے پاؤں ٹھوس زمین پر ہیں اور اس قبولیت کے نتیجے میں جب وہ چیز ’’فنون‘‘ میں چھپ کر سامنے بھی آجاتی تو انگریزی محاورے کے مطابق اسے اپنے ’’پہنچ جانے‘‘ کا احساس ہوتا تھا اور وہ اپنا تخلیقی عمل جاری رکھنے کا حوصلہ اپنے اندر پاتا تھا یہ شخصیت احمد ندیمؔ قاسمی کی تھی۔ جن تک صرف بڑے شہروں اور ادبی مرکزوں کے رہنے والے ادیبوں، شاعروں ہی کی رسائی نہ تھی، بلکہ ملک کے دور افتادہ علاقوں کے اُبھرتے ہوئے نوجوان شاعر یا ادیب بھی اپنے تخلیقی عمل یا تو ڈاک کے ذریعے یا شخصی طور پر ان تک پہنچاتے تھے اور پھر ان کے بارے میں ان کی بے لاگ رائے سے مستفید ہوتے تھے اور اس کے مطابق اپنا آگے کا رُخ متعین کرتے تھے یہ شخصیت جو اُردو ادب کے ایوان کے مرکزی سٹیج پر ایک عرصے سے براجمان تھی، اب نہیں رہی۔‘‘ (محمد کاظم)
*’’ایک شخص جو سینکڑوں ادیبوں، شاعروں، دانش وروں، صحافیوں، کالم نگاروں اور ادبی رسالوں کے مدیروں کا آئیڈیل ہو اور دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ اس کے مدّاح ہوں اور جو پچھلے پچاس برسوں میں ہر نئی آنے والی نسل کے افسانہ نگاروں، شاعروں کے لئے مشعلِ رہا ہو، اس کے وجود کے یوں اچانک بجھ جانے سے اندھیرا کس قدر گہرا ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ مجھے علی اکبر عباس کی آواز سننے سے جہاز میں بیٹھنے تک کے درمیانی عرصہ میں ہوا۔‘‘ (ایوب خاور)
*’’امن وامان کے غیر متزلزل ایمان نے اسے حالات سے ایک عجیب قسم کی شمشیر زنی سکھائی تھی ندیمؔ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ’’اعتدال اور احتیاط جمی ہوئی منظم زندگی کے لئے بہترین لائحہ عمل ہے۔‘‘ (معنی کی تلاش)
لاہور سمن آباد،غالب کالونی کے ایک معدوم ہوتے ہوئے رنگ و روغن والے مکان سے ایک عام آدمی کی طرح رُخصت ہوتا ہوا ندیمؔ اپنی ہی سطح کے انسانوں سے ایک مستقل استواری کی علامت ہے اس کی معتدل جمع بندی، پُر استدلال نقطہء نظر اور تہی دامنی کے اقداری فیصلے نے یہ ثابت کردیا کہ خاص آدمی ہونے کے باوجود عام آدمی کی طرح زندہ رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے ۔‘‘ (ڈاکٹر شاہین مفتی)
*’’وہ بنیادی طور پر کھرے اور سچے انسان دوست تھے، وہ بزرگوں کے بھی دوست رہے نوجوانوں کے بھی دوست بنے اور بچوں سے ان کی دوستی بہت پیاری، شگفتہ سی، معصوم سی تھی۔ آج ان کے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں، دوستوں، واقف کاروں کے بچوں کی ان کے لئے تڑپ اس دوستی کی گہرائی کو نمایاں کرتی ہے۔ ان کے جدا ہونے کا افسوس کرنے آنے والوں میں ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ تھے، جوان کے لئے بے پناہ اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ندیمؔ صاحب تو ہم سب کے ندیم تھے۔ بیشتر کا یہ خیال تھا کہ ندیمؔ اُن سے ہی، سب سے زیادہ پیار کرتے تھے، بیرون ملک سے فون پر لاتعداد افراد نے آنسوؤں سے بھیگے لہجے میں تعزیت کی۔ وہ سب بہت غمزدہ تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ عہد اس عظیم شاعر، ادیب اور دانش ور کے جانے سے تہی داماں ہو گیا ہے۔ ‘‘ (ناہید قاسمی)
*’’ہم ایک ایسی ہشت پہلو شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں جو پون صدی تک میدانِ ادب میں سرگرم عمل رہی۔ وہ ممتاز افسانہ نگار، غزل اور نظم دونوں پر دسترس رکھنے والے نامور شاعر، موقر اخبارات و جرائد کے کامیاب مدیر، فکاہیہ کالم نویس کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹیلی ویثرن اور فلم کے میدان میں اپنی تخلیقات کو متواتر پیش کرنے والے واحد سر گرم ادیب تھے۔ اُنہوں نے شہرت کی ایسی بلندیوں کو چُھوا جو بہت کم ادباء وشعراء کو نصیب ہوئی ہے۔ اُنہوں نے اپنی گراں قدر ادبی خدمات سے جو اَن مٹ نشان چھوڑے ہیں، وہ کبھی مٹ نہ سکیں گے اور شعروادب کی تاریخ اُن کے ذکرِ خیر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہو سکے گی۔ ‘‘ (نند کشور وکرم)
*’’بیسویں صدی کی تاریخ کا ایک قدر آور شخص دس جولائی 2006ء کو بہت طمانیت کے اسلوب سے بزمِ جہاں سے رخصت ہوا۔ جناب احمد ندیمؔ قاسمی محنت کش اور پسے ہوئے طبقے کے لوگوں کی محرومی کی زندگی میں معنویت اور تبدیلی کے خواب ستاروں کی طرح سجا کر ابھرے تہذیب وفن کے میدان میں اپنی غیر معمولی بصیرت کے نقش و نگار چھوڑ کر اس جہاں سے وداع ہوئے۔ ‘‘ (اصلاح الدین حیدر)
*’’گزشتہ صدی کی تیس کی دہائی کے آخر میں، اُردو ادب کے اُفق پر جو ایک کہکشاں ظہور پذیرہوئی تھی، قاسمی صاحب اس کا آخری ستارہ تھے۔ اُس روشن اور انقلابی ادبی دور سے تعلق رکھنے والا اب کوئی بھی اِس دنیا میں موجود نہیں۔ قاسمی صاحب نے جتنا بھر پور تخلیقی کام کیا، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔‘‘ (جمیل الدین عالیؔ)
*’’احمد ندیمؔ قاسمی کسی ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ادارے کا لفظ بھی ان کی شخصیت اور فن و ہنر کا احاطہ کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ ندیمؔ صاحب جیسے لیجنڈری ادیب اس دنیا سے پردہ پوش ہونے کے باوجود اپنے پیچھے کوئی خلا نہیں چھوڑتے کیونکہ ان کی تصنیفات اور چاہنے والوں کا ہجوم موجود رہتا ہے۔‘‘ (ظفر اقبال)
*’’احمد ندیمؔ قاسمی اپنی عمر کے دورانیے میں چراغ کی طرح روشن رہا اور جب یہ چراغ بجھا تو مشعل بن گیا۔ اپنی طبعی عمر سے نکل کر اب وہ ہماری صدیوں پر پھیلی ہوئی روایت کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ جو اُسے مزید روشنی ملنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے، اُس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ تین چوتھائی صدی تک بے تکان لکھتا ہی چلا گیا۔ اُ سکا قلم کبھی دم لینے کے لئے بھی نہیں رُکا۔ کوئی ہے جس نے ادب کی اتنی اصناف میں معیار ہنر کو برقرار رکھتے ہوئے اتنا لکھا ہو؟ احمد ندیمؔ قاسمی کی شاعری اور افسانہ نگاری تواپنی جگہ لیکن اُس کے چالیس سال کے مجاہدے اور ریاضت (’’فنون‘‘ کی ادارت) نے ہمارے ادب کو مسلسل تخلیقی وفور میں رکھا اور اسے کسی انتہا پسندی یا بنیاد پرستی سے بچ کر جمہور پرستی کے راستے پر چلنے کی سمت دکھائی۔‘‘ (آفتاب اقبال شمیم)
*’’اُن کے جنازے پر جب بانو قدسیہ آپا نے اُن کی میّت کا چہرہ دیکھنے کے دوران دو تین بار کہا کہ بیٹا مجھے کچھ نظر نہیں آرہا۔ تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ پوری اُردو دنیا کی ترجمانی کر رہی ہوں کہ ندیمؔ صاحب کے جانے کے بعد اب دُور دُور تک کوئی اُن جیسا دکھائی نہیں دیتا اور کسی کو کچھ نظر نہیں آرہا۔‘‘ (امجد اسلام امجد)
ابھی ابھی انہی کنجوں میں اُس کے سائے تھے
ابھی ابھی وہ تھا انہی برآمدوں میں یہاں
*’’یقین نہیں آتا کہ قاسمی صاحب رُخصت ہو گئے حالانکہ میں اُن کا معالج تھا اور خوب اچھی طرح سے جانتا تھا کہ عمر نے عنصر کے اعتدال کا کیا حال کر دیا تھا مگر وہ شخص ہی کچھ اور تھا۔ اتنا بڑا اور معتبر اور بے حد مصروف آدمی، لیکن اتنا نفیس، بیماری کی حالت میں بھی انتہائی نفیس اور پھر ہمیشہ اُجلا لباس، گفتگو انتہائی تحمل سے۔ اُن کی گفتگو سے کبھی ایسا نہیں لگا کہ ایک شخص جو موت کی آہٹ سن چکا ہو۔ اتنا شانت، مطمئن اور آسودہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ قاسمی صاحب تو اپنی تکلیف کا ذکر بھی بے حد مدھم انداز میں کرتے جیسے کسی دوسرے آدمی کا قصہ بیان کررہے ہوں۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آج سانس کی تکلیف کچھ زیادہ ہے۔‘‘
’’کبھی کبھی ہمارے درمیان بے تکلفانہ گفتگو بھی ہوتی تھی۔ کبھی ادب، کبھی مصوری اور خطاطی، کبھی روز مرہ کے معاملات پر لیکن اس گفتگو میں بھی میری جانب سے حدِ ادب اور اُن کی طرف سے ایک خاص حدِ متانت قائم رہتی تھی۔
’’جِس دن قاسمی صاحب رُخصت ہوئے، میں اسلام آباد میں تھا۔ مجھے اِس بات کا افسوس تو ہے کہ آخری لمحوں میں اُن کی خدمت نہیں کر سکا۔ لیکن مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اتنی عزیز ہستی اور اتنے پیارے وجود کو اپنی آنکھوں سے رُخصت ہوتے دیکھنا اور اپنے ہاتھوں سے رُخصت کرنا بھی انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہوتا مجھے ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ قاسمی صاحب آئیں گے۔ میرا عملہ اُن کو عزت و تکریم سے کلینک کے کسی خالی کمرے میں بٹھائے گا اور میں!
’’محبت، دوستی، تعلق ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کو کتنے بہت سے آنسو دے دیتے ہیں
رفتیدہ ولے نہ از دِل ما‘‘
(ڈاکٹر محمود ناصر ملک ۔ ندیمؔ صاحب کے معالج)
*’’میں شکاگو میں ہوں! گزشتہ روز میرے ہوٹل کے کمرے کے فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف افتخار نسیم تھا۔ اس نے بھرّائی ہوئی آواز میں مجھے بتایا کہ احمد ندیم قاسمی انتقال کر گئے ہیں اور آج انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد چند لمحوں تک ہم دونوں کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی۔ غالباً ہمیں ایسے لگا جیسے اس ایک شخص کے ساتھ ایک پورا عہد ہم سے رخصت ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہم دونوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک شخص کا ماتم تو کیا جا سکتا ہے۔ پورے عہد کا ماتم کیسے کیا جائے؟‘‘ (عطاالحق قاسمی)
*’’احمد ندیمؔ قاسمی نے ایک بھر پور زندگی گزاری اور ایک آدھ نہیں پانچ میدانوں میں ستّر برس تک دادِ شجاعت دی۔ شاعری، افسانہ نگاری، ترقی پسند تحریک، صحافت اور ادبی سیاست ۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک شاندار اننگ کھیلی اور ایسی کہ تین نسلوں میں ان گنت لکھنے والوں نے اُن پر رشک کیا۔ وہ آبرومندی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔‘‘ (ہارو ن ا لرشید)
*’’اُردو ادب کو نہ مندمل ہونے والا زخم دیکر ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جانے والے احمد ندیمؔ قاسمی بہت بڑے شاعرتھے لیکن وہ محض شاعر تو نہیں تھے، وہ طبقاتی استحصال کے بہت بڑے دشمن تھے۔ انہوں نے جس بہادری سے لوٹ مار کرنے والوں کو اور طروں اور عماموں کو للکارا، اسکی مثال اُردو ادب میں تو کیا دنیا بھر کے ادب میں شاید ہی ہو میرا دعٰوی ہے کہ احمد ندیمؔ قاسمی کے بے شمار فن پاروں کی سی اُ ردو ادب ہی میں نہیں، عالمی ادب میں کوئی مثال نہیں پائی جاتی۔‘‘ (محمد اظہار الحق)
*’’میں نے سوچا المیہ دیکھئے اس ملک میں احمد ندیمؔ قاسمی جیسی ہستی 90 سال کی عمرمیں بھی فکرِ معاش سے آزاد نہ ہو سکی۔ انہیں ادب کی 70 سال تک کی خدمت کے بعد بھی تنخواہ کے چیک کا انتظار رہتا تھا۔ وہ آخری وقت تک نوکری کے دکھ میں مبتلا تھے۔ یہ سلوک تھا جو ہم اس ملک کے سب سے بڑے دانش ور کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں وہ دریا تھے اور ہمارا سارا سماجی گند سمیٹ کر چپ چاپ سمندر میں اُتر گئے۔ لیکن ان کی موت یہ ثابت کرتی ہے، ہم لوگ یونان کے باسیوں سے پانچ ہزار سال پیچھے ہیں۔ یونان کے لوگ ہم سے کہیں زیادہ سیولائزڈ اور مہذب تھے۔ قاسمی صاحب کا انتقال ثابت کرتا ہے، اگر احمد ندیمؔ قاسمی پانچ ہزار سال پرانے یونان کے باسی ہوتے تو وہ ایلیا (دانش وروں کے لئے آباد کی گئی بستی) کے سردار ہوتے اور وقت کے بادشاہ تک جوتی اُتار کر اُن کے دربار میں حاضر ہوتے۔‘‘ (جاوید چوہدری)
*’’۔۔۔۔۔ اُداسی کا صحیح اندازہ اُردو ادب کے مستقبل کو دیکھ کر ہوتا ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں ۔۔۔۔۔ اے اہلِ دل! اب ہم میں مثبت اندازِ فکر اور تعمیری رویے بانٹنے والا وہ بڑا انسان نہیں رہا ۔۔۔۔۔ جس نے تخریب کے جواب میں تعمیر اور نفرت کے جواب میں محبت تقسیم کی۔‘‘ (بشریٰ اعجاز)
*’’پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے سیاست دان ہونے کے باوجود بڑی دانش مندانہ بات کہی ہے کہ بابائے ادب احمد ندیمؔ قاسمی کی وفات پورے معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعزیتی پیغام (بذریعہ فرزانہ راجہ) اور جماعت اسلامی کے لیڈروں کا مرحوم کے گھر جا کر تعزیت کرنا بھی ثابت کرتا ہے کہ مختلف نظریات رکھنے والے سیاست دان بھی درویشوں کا دلی احترام کرتے ہیں۔ قاسمی صاحب کی دائمی جدائی سے دل اور آنکھیں اشک بار ہیں۔‘‘ (خواجہ پرویز)
*’’ان کی شخصیت کے ارد گرد محبت، احترامِ انسانیت اور انسان دوستی کا ایک ایسا ہالہ تھا کہ جو بھی اس کی زد میں ایک بار آجاتا، پھر عمر بھر نہ نکل سکتا تھا۔ ان کی محبت کا ہر شخص کے لئے انفرادی اظہار ہی دراصل اس تعلق داری کا سبب تھا، جو ان کی رفاقت میں بیٹھا ہوا ہر شخص محسوس کرتا تھا۔ کچھ عرصہ اگر کسی کی خبر نہ ملتی تو ندیمؔ صاحب خود رابطہ کرتے، فون کرتے یا خط لکھ دیتے، نہیں تو اس شہر کا کوئی فرد اُن سے ملنے آتا تو انفرادی طور پر دوسروں کی خیریت معلوم کرتے۔ گزشتہ برس شمالی علاقہ جات میں زلزلے کے سبب جب ہزاروں لوگ دنیا سے رخصت ہو گئے تو سب سے پہلے آپ نے اپنے کالم ’’رواں دواں‘‘ میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے عام ادیبوں سے لے کر بڑے ناموں تک سبھی کا ذکر اپنے کالم میں کیا اور خیریت دریافت کی۔‘‘ (غافر شہزاد)
*’’میرے قاسمی صاحب نئے لکھنے والوں کی سرپرستی دل کھول کر کیا کرتے تھے، ان کے لئے نئے راستے تراشتے تھے۔ ادیب کی تخلیقی شخصیت بہت سے خانوں میں بٹی ہو تو ناقدین اور قارئین کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اسے کس خانے میں رکھا جائے۔ جناب احمد ندیمؔ قاسمی ایک ہی وقت میں منفرد شاعر، صاحبِ اسلوب افسانہ نگار، واضح سوچ رکھنے والے کالم نویس اور مدّبر مدیر تھے۔ میرے خیال میں ان کی چاروں تخلیقی حیثیات ہی مضبوط ہیں لیکن مجھے ان کی شاعرانہ شخصیت نے ہمیشہ اپنے زیرِ اثر رکھا۔ ان کی شاعری ایک مکمل انسان کے مکمل تجربوں کی عکاس ہے۔ اُنہوں نے اپنی شاعری میں جو بات کہی، آفاقی تھی۔ قاسمی صاحب کے لاتعداد شعر آج زبان زدِ عام ہیں، بعض تو ضرب المثل بن چکے ہیں قاسمی صاحب کی شاعری اور شخصیت میں رتی برابر بھی تضاد نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی شاعری میں جس آدرش اور نظریئے کا پر چار کرتے تھے، وہی ان کی شخصیت اور کردار کا حصہ تھا، اور یہ ایسی صفت ہے جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی۔‘‘ (ناصر بشیر)
*’’احمد ندیمؔ قاسمی کی رحلت کی خبر کا سُن کر کون شخص ہو گا جس کی آنکھوں میں نمی نہ اُتری ہو گی۔ اُن کی وفات نے سب کو سوگوار کردیا۔ یوں لگتا ہے کہ ادبی منظر نامہ دھند کی دبیز تہہ کے پیچھے چھپ گیا ہو۔ اُن کے جانے کا دکھ سب سے زیادہ لکھنے والوں کو ہوا۔ کہتے ہیں کہ احمد ندیمؔ قاسمی نے اپنے دل میں ایک چراغ جلا رکھا تھا، جس کی لو سے ہر اُس شخص کو فائدہ پہنچتا تھا جو لفظ کی حرمت پہچانتا تھا۔ وہ ایک سایہ دار درخت کی مانند تھے جس کی چھاؤں میں ہر کوئی سستانے بیٹھ جاتا اُن کی اپنی تحریروں میں درد، رچاؤ اور محبت کا ایسا پیغام ہے جو ہر ذی روح محسوس کر سکتا ہے وہ چاہتے تو بڑے آرام کے ساتھ کوئی بڑا عہدہ وصول کرتے اور شاہانہ زندگی بسر کرتے لیکن وہ تو پیدا ہی ادب کی خدمت کے لئے ہوئے تھے۔‘‘ (طارق مسعود)
*’’آج ایک بات کہہ دینا چاہتی ہوں مَیں! کہ آج کتنے لوگ افسردہ ہیں، مگر کچھ لوگ شرمندہ بھی ہوں گے بہت بے شرم ہیں، آج بھی ہیں، کچھ سرکاری و غیر سرکاری نمائندے۔ ان کی وجہ سے میں نے اس انسان کو افسردہ دیکھا تھا۔ وہ جو لاہور کا ندیمؔ تھا اور پاکستان کا احمد ندیمؔ قاسمی۔‘‘ (افضل توصیف)
*’’فی الجملہ ان کی ذات میں پورا عہد سانس لے رہا تھا۔ ایسی ہستیاں صدیوں بعد جنم لیتی ہیں۔‘‘ (علی تنہا)
ندیمؔ مستقبل
*’’احمد ندیمؔ قاسمی قلم کے دَھنی تھے۔ پون صدی (1931ء سے 2006ء) تک تخلیقی لحاظ سے فعال رہے۔ بہت کچھ کتابوں میں محفوظ ہوا لیکن بہت کچھ جرائد اور بالخصوص اخبارات میں ہنوز منتشر ہے۔ مستقبل کا ادبی مورخ یا ڈاکٹریٹ کا اُمیدوار جب اُن کے بارے میں کام کرے گا تو تمام قلمی آثار کی تلاش اور فراہمی آسان نہ ہو گی کہ چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!!‘‘ (ڈاکٹر سلیم اختر)
*’’مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کی ابتداء میں ہم سے ایسی شخصیات جُدا ہو گئی ہیں جو اپنے مخصوص فکری و شعوری ارتقاء میں نشاۃ ثانیہ لے کراٹھارویں، اُنیسویں اور بیسویں صدی کے عالمی دانش مند تقاضوں کا نچوڑ بھی تھیں اور اب نئی صدی میں کم از کم اُردو جہانِ ادب میں تو ہمیں قاسمی صاحب کے نام سے ہی ابتداء کر کے آگے بڑھنا ہو گا معیار میں بھی اور اقدار میں بھی۔‘‘(قیصر تمکین)
*’’اِس کوزہ کی گھڑت میں وادیء سون کے پربتوں کی رنگت اور انگہ کی مٹی کا بانکپن آمیز ہے، جو تخلیقی تجربے کی چاک پر چڑھا ہے اور سکسیر کی ہواؤں کی تازگی میں پختہ ہوتا ہے۔ اس کوزہ گر کی مہارت کو، حسنِ عمل اور عظمتوں کو جانچنے کے لئے اِک عمر کی ریاضت اور اِک وقت کا بہاؤ درکار ہے۔ یہ کوئی دو چار صفحوں کی استعداد نہیں ہے۔‘‘ (طاہرہ اقبال)
*’’گزری نصف صدی میں برصغیر میں کوئی علمی وادبی شخصیت ایسی نہیں ہوئی جس کا رشتہ قاسمی صاحب سے نہ ہو، چاہے اِ س رشتے کا نام رقیب یا حریف کیوں نہ ہو۔ قاسمی صاحب ایسی شخصیت تھے، جنہوں نے اپنے عہد کے تمام لوگوں کو متاثر کیا۔ بلاشبہ وہ جس دور میں جئے، اُسے قاسمی صاحب کا دور کہا جائے گا احمدندیمؔ قاسمی بہت سی کتابوں کے بہت سے صفحات کے ساتھ ساتھ بہت سارے انسانوں کے دل و دماغ میں ادب، فن اور محبت کی ایک حسین یاد گار کے طور پر بہت برسوں تک زندہ رہیں گے!‘‘ (طاہر سرور میر)
*’’احمد ندیمؔ قاسمی کا چہرہ ایک فرد کا چہرہ نہیں تھا، ان کے چہرے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں چہروں کا کرب سمٹ آیا تھا۔ ان کا نورانی چہرہ ہمارے عصر کا آیئنہ تھا۔ وہ ہمارے عہد کی پہچان تھے۔ اِسی سرمائے سے محرومی ہمارے دِلوں کو ایک عرصہ دُکھ سے بوجھل رکھے گی۔‘‘ (ایم آر شاہد)
*’’علامہ اقبال کی نظریاتی تقلید میں اپنی قوم کو روشن خیالی اور بالغ نظری سے روشناس کروانے والے دانشوروں میں فیض احمد فیضؔ اور احمد ندیمؔ قاسمی بہت نمایاں اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد کی تین نسلوں کو اپنے کردار اور افکار سے براہِ راست متاثر کرنے والے یہ دانشور شرح خواندگی میں اضافے کے ساتھ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرتے رہیں گے۔‘‘ (منو بھائی)
*’’احمد ندیمؔ قاسمی یوں تو ایک نابغہء روزگار کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی قدر و منزلت ہر حلقے میں پائی جاتی تھی مگر ان کی اصل انفرادیت یہ تھی کہ وہ دوسروں کو بڑا بنانے میں غیر معمولی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ان کے دامنِ تربیت میں کتنے ہی چاند ستارے بنتے اور آب و تاب حاصل کرتے رہے اور بعد میں شعر و ادب کے اُفق پر جلوہ گر ہوئے۔ وہ بنیادی طور پر ایک شفیق اُستاد اور ایک بے غرض تخلیقی رہنما تھے۔ یوں ایک ایسا دبستانِ علم وفن قائم ہوا جس کا فیض مدتوں جاری رہا اور اس سے لاکھوں افراد مستفید ہوئے جو اپنے اپنے عہد میں جلوہ گاہِ شوق کی تزئین کرتے رہے۔ جناب احمد ندیمؔ قاسمی کا جسدِ خاکی تو مٹی میں دفن ہو گیا لیکن ان کی عظیم سوچ، انسانیت کے ساتھ اُن کا محبت بھرا رشتہ اور اپنی ادبی صلاحیتوں کے ذریعے نوجوانوں کا ادبی مستقبل سنوارنے کا پُر خلوص عمل زندہ وتا بندہ رہے گا۔‘‘ (الطاف حسن قریشی)
جبکہ احمد ندیمؔ قاسمی کا کہنا ہے کہ:
’’اگر مجھے زندہ رہنا ہے تو میرا لفظ مجھے زندہ رکھے گا۔ اس لفظ میں جان نہیں ہے تو میں کیوں کسی کو یاد رہوں گا۔ چنانچہ میری کسوٹی وہ لفظ ہے جو میرے فن میں وارد ہوتا ہے۔‘‘
ندیمؔ اگر ایک شعر میں یہ کہتے ہیں کہ:
ایک دل میں بھی مری یاد اگر زندہ ہے
کیا ضروری ہے کہ چرچا رہے گھر گھر اپنا
تو وہ بڑے یقین سے ان اشعار میں یہ بھی کہتے ہیں کہ:
میں تو مر جاؤں گا، لیکن یارو
کبھی آئے گا زمانہ میرا
اور
سوچتا ہوں، مری مٹی کہاں اُڑتی ہو گی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے